تعارف
نام محمد خورشید الحسن رضوی اور تخلص خورشید ہے۔۱۹؍مئی ۱۹۴۲ء کو امروہہ میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے۔گورنمنٹ کالج، سرگودھا کے شعبۂ عربی کے استاد رہے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’’رائگاں‘‘، ’’شاخ تنہا‘‘، ’’سرابوں کے صدف‘‘(شعری مجموعے)، ’’تاریخ علوم میں تہذیب اسلامی کا مقام‘‘، ’’خاکے، مضامین، ترجمے‘‘۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:359
یہ محترم ڈاکٹر خورشید رضوی کی شہرہء آفاق نعت ہے جس کے کچھ اشعار میں آپ نے رسول اکرم ص کی کچھ صفاتِ والا کی طرف اجمالا اشارہ کیا ہے اور کچھ اشعار میں آپ ص کے حضور عقیدت کے پھول نچھاور کئے ہیں۔
مکمل کلام
پھر رہِ نعت میں فدم رکھا | ||
پھر دمِ تیغ پر قلم رکھا | ||
شافعِ عاصیاں کی بات چلی | ||
سرِ عصیاں ادب سے خم رکھا | ||
صانعِ کن کی غایتِ مقصود | ||
جس کی خاطر یہ کیف و کم رکھا | ||
باعثِ آفرینشِ افلاک | ||
خاک کو جس نے محترم رکھا | ||
آسماں پر اسی کے جھکنے کو | ||
آسماں کی کمر میں خم رکھا | ||
مدحتِ شانِ مصطفیٰ کے لئے | ||
دل میں سوز اور مژہ میں نم رکھا | ||
ہاں اسی آخری نوا کے لئے | ||
سازِ ہستی میں زیر و بم رکھا | ||
تو نے اے چارہ سازِ امتیاں | ||
دھیان سب کا بچشمِ تر رکھا | ||
دکھ کسی کا ہو اپنے دل پہ لیا | ||
تو نے ہم سے وہ ربطِ غم رکھا | ||
تیری ہستی نے فرقِ امت پر | ||
تاجِ سرتاجئِ اُمم رکھا | ||
ہر زمانہ ترا زمانہ ہے | ||
سب زمانوں کو یوں بہم رکھا | ||
کوششِ نعت نے مجھے خورشید | ||
خود سے شرمندہ دم بدم رکھا |