محسن نقوی (1947-1996ء)پاکستان کے بڑے قادر الکلام شاعر اور ذاکر اہل بیت ؑ تھے۔

محسن نقوی
شاعر
300px
اطلاعات
زمینه فعالیتغزل، مذہبی شاعری
ملیتپاکستانی
محل زندگیلاہور
کتاب‌هافرات فکر، موجِ ادراک، حق ایلیا
تخلصمحسن


مختصر سوانح حیات

محسن نقوی کا پورا نام سید غلام عباس تھا اور محسن تخلص۔ ۵؍مئی۱۹۴۷ء کو ڈیرہ غازی خاں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پرائمری اسکول، ڈیرہ غازی خاں میں حاصل کی۔ اس کے بعد گورنمنٹ کالج، ڈیرہ غازی خاں(موجودہ نام ٹیکنکل انسٹی ٹیوٹ) میں تعلیم پائی۔ بعد ازاں ایم اے تک تعلیم حاصل کی۔ شاعری میں شفقت کاظمی اور عبدالحمید عدم سے رہنمائی حاصل کی۔[1] محسن نقوی بیک وقت ذاکر و خطیب، شاعر، صحافی ، براڈ کاسٹر بھی تھے اور سیاست کے میدان بھی ان کے نقشِ کفِ پا ملتے ہیں۔ ان کی شاعری نے غزل کے محدود صفات اور فانی محبوت سے لامحدود صفات اور لافانی ممدوح کی ثنا تک کا سفر طے کیا ہے۔ محسن نقوی مرثیے کی ساری روایت کو مانتے تھے، عبادت کی طرح انیس اور دبیر کا احترام کرتے تھے، لیکن مرثیے کے جمود کی بجائے ارتقاء کے قائل تھے۔ عصری حسّیت اور وقت کی ضرورت کے ادراک پر زور دیتے تھے۔ انہوں نے لوازمِ مرثیہ سے انکار نہیں کیا مگر اپنے مرثیوں میں ان لوازم کے استعمال کو ضروری بھی نہیں سمجھا۔ وہ مرثیے میں "بین" سے زیادہ مقصدِ ذبحِ عظیم کو اہم سمجھتے تھے۔[2] ان کی کتاب "فراتِ فکر" کے ایک مرثیے سے ان کی مرثیہ گوئی کے رجحانات کی نشاندہی ہوتی ہے؎

قریہ جاں میں ابھرنے لگا پھر گریۂ شبپھر ملا اذنِ تکلم پئے یک جنبشِ لب
پھر بڑھی تشنہ لبی، حدتِ خواہش کے سببدیدہ و دل کو ہے پھر چشمۂ کوثر کی طلب
آگہی غازۂ رخسار سحر مانگتی ہے
زندگی وقت سے جبریل کا پر مانگتی ہے
شہر در شہر مچی قہر سلاطین کی دھومصحنِ گلشن میں مسلط ہوئی خود بادِ سموم
ظلمتِ جہل کی ہیبت سے پڑے زرد علوملشکرِ جبر نے پامال کیا، حسنِ نجوم
جبر کا شور بڑھا، جب حدِ رسوائی سے
کھل گئی گرہِ جنوں صبر کی انگڑائی سے
صبر، سرمایۂ دل، صبر مناجات ضمیرصبر خوشبو کی طرح، پھول کے سینے میں اسیر
صبر، صحرا سے گزرتے ہوئے بادل کا سفیرصبر، سقراط کے ہونٹوں پر تبسم کی لکیر
صبر ایوانِ سلاطیں میں کہاں ملتا ہے
صبر کا پھول سرِ نوکِ سناں کھلتا ہے
صبر کونین کے چہرے کے لیے زینت و زینصبر معیارِ نظر، دولتِ جاں، راحتِ عین
صبر خیبر کا جری، فاتح صد بدر و حنینصبر کردارِ نبی، صبر علمدارِ حسین ؑ
صحنِ تاریخ میں جب خاک بکھر جاتی ہے
کربلا صبر کی معراج نظر آتی ہے[3]

مرثیہ عام طور پر مصائب و بین پر ختم ہوتا ہے۔ اختتام مرثیہ کے بند، آغاز مرثیہ سے مختلف ہوتے ہیں، لیکن محسن نقوی کے مندرجہ ذیل مرثیے میں مصائب کے اختتامی بند بھی آغاز اور عنوان سے مسلسل ہیں؎

ایک اِک کر کے بچھڑتے تھے جب انصارِ حسین ؑآسرا کوئی ضعیفی کا، کوئی روح کا چین!
یہ جواں لاش، وہ کم سن تو اُدھر راحتِ عین!ہچکیاں وہ کسی بچی کی، کسی ماں کے وہ بین
زندگی درد سے بس دیدۂ تر جیسی تھی
عصرِ عاشور قیامت کی سحر جیسی تھی
مقتلِ شہ ؑ کی زمیں خون سے تر ہو کے رہیزندگی اپنے ہی سینے کی سپَر ہوکے رہی
نوکِ نیزہ کی بلندی تھی کہ سر ہو کے رہیظلم کے اَبر چھٹے، دیں کی سحر ہو کے رہی!!
جبر کا نام و نشاں ، بھُولا ہوا خواب ہوا
صبر شبیر ؑ کے سجدے سے ظفریاب ہوا[4][5]


حوالہ جات

  1. شمس الحق، پیمانہ غزل: ج2، ص386
  2. کاظمی، اردو مرثیے کا سفر، ص614
  3. محسن نقوی، فرات فکر، ص81 و مابعد
  4. ایضا
  5. کاظمی، اردو مرثیے کا سفر، ص614

مآخذ

  • شمس الحق، محمد، پیمانۂ غزل، اسلام آباد، نیشنل بک فاونڈیشن، طبع اول، 2008ء۔
  • کاظمی، سید عاشور، اردو مرثیے کا سفر اور بیسویں صدی کے اردو مرثیہ نگار، دہلی نو، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، طبع اول، 2006ء۔
  • محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، ۲۰۰۷ء.