اللہ ہُو اللہ ہُو اس معروف حمدیہ کلام کے شاعر مولانا سید حسن امداد جعفری ہیں۔

تعارف

"فاعِلن فاعِلن فاعِلن فاعِلن" کے وزن پر لکھا گیا یہ حمدیہ مسدس اردو کی مذہبی شاعری میں ایک خوبصورت شاہکار ہے۔

مکمل کلام


حوالہ جات

  1. نقل از: زیدی، بستہ: ص7

مآخذ

  • زیدی، پروفیسر سید سبط جعفر، بستہ، کراچی، محفوظ بک ایجنسی، طبع سوم، 1432ھ، 2011ء
چاند تاروں کی شانِ جمالی میں تُوسبز پتوں میں پھولوں کی لالی میں تُو
خوشے خوشے میں تو، بالی بالی میں تُوٹہنی ٹہنی میں تُو، ڈالی ڈالی میں تُو
بوٹے بوٹے میں گل، گل میں بُو ، بُو میں تُو
اللہ ہُو اللہ ہُو، اللہ ہُو اللہ ہُو!
سبر پوشانِ گلشن سرِ آبِ جُونرگس و نسترَن، یاسمن، ناز بُو
مشک بیزانِ دشتِ خُتن چار سُوطائرانِ چمن خوش نوا، خوش گلُو
کہتے ہیں آبِ شبنم سے کرکے وضو
اللہ ہُو اللہ ہُو، اللہ ہُو اللہ ہُو!
یوں تو ہر اِک نبی ؑ تجھ سے منسوب ہےتیرابھیجا ہوا ہے ، بہت خوب ہے
ہاں مگر اُن میں اِک تیرا محبوب ہےجس کی ہر اِک ادا تجھ کو مرغوب ہے
تیرا محبوب وہ، اس کا محبوب تُو
اللہ ہُو اللہ ہُو، اللہ ہُو اللہ ہُو!
دخل ممکن نہیں تیرے اسرار میں کس کو یارا بھلا تیری سرکار میں
کس کو تابِ سُخن تیرے دربار میںحُسنِ یوسف تو بِک جائے بازار میں
اور نفسِ نبی ؐ کا خریدار تو!
اللہ ہُو اللہ ہُو، اللہ ہُو اللہ ہُو!
دید کس کو میسر تری ذات کیلاکھ موسیٰ ؑ نے تجھ سے مناجات کی
پھر بھی تو نے نہ اُن سے ملاقات کیچھپ کے پردے میں کی ، جب کبھی بات کی
اور محمدؐ سے کی دُو بدُو گفتگو
اللہ ہُو اللہ ہُو، اللہ ہُو اللہ ہُو!
گفتگو کب خدائی کے لہجے میں تھیکب بھلا کبریائی کے لہجے میں تھی
کب تکبّر بڑائی کے لہجے میں تھییاں تو ہر بات بھائی کے لہجے میں تھی
آرہی تھی نبیؐ کو اُخوت کی بو
اللہ ہُو اللہ ہُو، اللہ ہُو اللہ ہُو!
تھی محمدؐ کو حیرت یہ کیا راز ہےیا تو کوئی نہ یار اور نہ دمساز ہے
پھر یہ ہے کون، یہ کس کی آواز ہےیہ تو کچھ میرے بھائی کا انداز ہے
اے خدا سچ بتا یہ علی ؑ ہیں کہ تُو
اللہ ہُو اللہ ہُو، اللہ ہُو اللہ ہُو!
کیا علی ؑ ہم سے پہلے یہاں آگئے؟توڑ کر سب حدودِ مکاں آگئے؟
یا مرے ساتھ ہی مثلِ جاں آگئے؟چھوڑ آئے کہاں تھے، کہاں آگئے؟
اللہ اللہ ! علیؑ میں ہے اتنا عُلو
اللہ ہُو اللہ ہُو، اللہ ہُو اللہ ہُو!
جبرئیل ؑ اپنے پَر دیکھتے رہ گئے شانِ سیرِ بشر دیکھتے رہ گئے
گردِ راہ سفر دیکھتے رہ گئےتا بہ حدِّ نظر دیکھتے رہ گئے
اور محمد ؐروانہ ہوئے سوئے ہُو
اللہ ہُواللہ ہُو، اللہ ہُو اللہ ہُو!
ہر فضیلت محمدؐ کے گھر بھیج دیتھی جو شے خوب سے خوب تر بھیج دی
اُن کے بھائی کو تیغ دو سر بھیج دیاور مَلَک سے پھر اس کی خبر بھیج دی
لافتیٰ کی صدا اب بھی ہے چار سُو
اللہ ہُو اللہ ہُو، اللہ ہُو اللہ ہُو!
اللہ اللہ ! تری ذاتِ عزّ وجلشرک پر تھے جو صدیوں سے اپنے اٹل
جن کا نعرہ اُحد میں تھا "اعلیٰ ہُبل"دیکھ کر تیغِ حیدرؑ گرے منہ کے بل
اور کہنے لگے خوف سے حیلہ جُو
اللہ ہُو اللہ ہُو، اللہ ہُو اللہ ہُو!
جن کو اپنے بزرگوں سے پستی ملیعلم وعرفان کی فاقہ مستی ملی
دین و ایمان کی تنگ دستی ملیاپنے اجداد سے بت پرستی ملی
اُن کی محفل میں بھی آج ہے چار سُو
اللہ ہُو اللہ ہُو، اللہ ہُو اللہ ہُو![1]