میر انیس (1803ء - 1874ء) برصغیر پاک و ہند کے مشہور شیعہ شاعروں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی جوانی سے ہی صرف اہل بیت ؑ کے لیے اشعار لکھے۔
مختصر سوانح حیات
میر انیس کا پورا نام میر ببر علی انیس تھا۔ان کا سلسلہ نسب امام رضا علیہ السلام تک جا پہنچتا ہے۔انہیں فارسی اور عربی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔ انیس نے بہت سی نظمیں لکھیں اور اپنے پوتے کے مطابق ایک ہی رات میں اس نے واقعہ عاشورا کے بارے میں 1182 مصرعوں پر مشتمل ایک طویل کلام لکھا۔انیس نے اپنے وقت کے بادشاہوں کی تعریف میں کبھی شاعری نہیں کی اور اپنے بچوں کو ایسا کرنے سے گریز کرنے کا مشورہ دیا۔ میر انیس کے گھرانے میں بہت سے شعراء اور مرثیہ نگار تھے۔ انیس زیادہ تر لکھنؤ میں مرثیے پڑھتے تھے، لیکن 1857ء میں، جب سلطنت اُودھ (اُودھ علاقے کے شیعہ حکمرانوں) پر برطانوی راج کا غلبہ ہوا تو اس نے دوسرے شہروں کا بھی سفر کیا۔ مختلف علاقوں میں میر انیس کی مرثیہ سرائی عوامی سطح پر ان کی مقبولیت کا سبب بنی۔ انیس کا انتقال 72 سال کی عمر میں لکھنؤ میں ہوا اور اسی شہر میں ان کی تدفین ہوئی۔ میر انیس کی وفات کو برسہا برس گزر گئے ہیں، لیکن آج بھی پورے برصغیر سمیت دنیا بھر میں ہونے والی مختلف مجالس عزا بالخصوص محرم الحرام کی مجالس میں ان کے لکھے ہوئے اشعار پڑھے جاتے ہیں۔ اردو شاعری میں انیس کا مقام جوش ملیح آبادی کے اس کلام سے کسی حد تک واضح ہوتا ہے:
اے دیارِ لفظ و معنی کے رئیس ابن رئیس | اے امین کربلا، باطل فگار و حق نویس | |
ناظم کرسی نشین و شاعر یزداں جلیس | عظمتِ آل محمد کے مؤرخ اے انیس | |
تیری ہر موج نفس روح الامیں کی جان ہے | ||
تو مِری اردو زباں کا بولتا قرآن ہے[1] |
حوالہ جات
- ↑ زیدی، اتر پردیش میں اردو مرثیہ نگاری: ص25
مآخذ
- زیدی، علی جواد، اتر پردیش میں اردو مرثیہ نگاری، ناشر : سمن حسین، لکھنؤ، 2003ء۔