فلک قتل سبط پیمبر ہے کل
معلومات | |
---|---|
شاعر کا نام | میر تقی میر |
قالب | رباعی |
وزن | فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعَل |
موضوع | مصائب کربلا |
مناسبت | روز عاشورا |
زبان | اردو |
تعداد بند | 16 بند |
فلک قتلِ سبط ِپیمبر ہے کل: میر تقی میر دہلوی کا تصنیف کردہ مرثیہ ہے۔
تعارف
مکمل کلام
[1]
فلک قتلِ سبط ِپیمبر ہے کل | ||
یہ ہنگامہ ہونا مقرر ہے کل | ||
سحر شامِ تیرہ سے بدتر ہے کل | ||
بلا [2]کل [3]مکل ہے کہ محشر ہے کل | ||
کہاں ہوگا افسر[4] سرِ شہ کہاں ! | ||
یہ خیمہ کہاں اور خرگہ [5]کہاں ! | ||
جو کچھ ہے حشم[6] آج، سو یہ کہاں ! | ||
نہ حاکم، نہ یاور، نہ داور ہے کل | ||
نہ ہوگا کوئی جو کرے داوری[7] | ||
رہے گی وہ لاش اس زمیں پر پڑی | ||
نگہبان ہوگا خدائے قوی | ||
مصیبت عجب ایک اس پر ہے کل | ||
نہ ہوگا کوئی یار و انصار ،آہ ! | ||
نہ خویش و برادر، نہ رتبہ ،نہ جاہ | ||
مرے گا بہت ہوکے بیکس، وہ شاہ | ||
نہ قاسم ؑنہ اکبر ؑنہ اصغر ؑہے کل | ||
جو بازو [8]ہیں جاویں گے سب دے کے جاں | ||
نظر جس کے اوپر کرے سو کہاں | ||
ستم ہوگا چاروں طرف سے عیاں | ||
نہ احمدؐ معاون ،نہ حیدر ؑہے کل | ||
نہ عباس ؑہوگا نہ ہوگا علم | ||
کہ ہاتھ اس کا بازو سے ہوگا قلم [9] | ||
رہیں گے جو پیچھے کسانِ حرم [10] | ||
سو ان کو نہ جاگہ[11] نہ گھر در ہے کل | ||
سرِ شہ نہ ہوگا یہ اَسرار ہے | ||
کسانِ حرم اور بازار ہے | ||
رہے گا جو سجادؑ بیمار ہے | ||
سو اس کو نہ دارو [12]نہ بستر ہے کل | ||
معزز حرم کے رہیں گے جو لوگ | ||
پریشاں پھریں گے گرفتار سوگ | ||
اسیری و غارت سے چالوں کو روگ | ||
نہ پردہ انھوں کو نہ چادر ہے کل | ||
جہاں جائے عبرت ہے کیا اعتبار | ||
ہمیشہ نہیں ایک کا اختیار | ||
شکستِ شہِ دیں سے ہے آشکار | ||
نہ وہ کوکبہ[13] ہے نہ لشکر ہے کل | ||
دمِ آب ہووے گا نایاب وہاں | ||
نہ کنبہ ،قبیلہ، نہ احباب وہاں | ||
نہ دولت سرا وہ نہ اسباب وہاں | ||
نہ ساماں ، نہ سر ہے ، نہ سرور ہے کل | ||
تن نازنیں ہوگا گھائل تمام | ||
بلا ہوگا اس ایک پر اژدہام | ||
جبیں سے بہے گا لہو لعل فام [14] | ||
گلوئے مبارک پہ خنجر ہے کل | ||
بچے گا جو بیٹا سو ہوگا اسیر | ||
عزیزِ حرم سب بہ حالِ تغیر | ||
بکا کرتے ہیں ہوں گے صغیر و کبیر | ||
کہاں ایسی غارت سے وہ گھر ہے کل | ||
سکینہ ؑکہے گی پدر کیا ہوا | ||
کرے دل دہی جو گلے سے لگا | ||
نہ کلثوم ؑکے پاس ہوگی ردا | ||
نہ زینب ؑکے تارک[15] پہ معجر [16]ہے [17]کل | ||
قیامت ہے اودھر کو ہوگا گزار | ||
جدھر اس طرح کا ہوا کارزار | ||
نظر آوے گی لاشِ شہ ایک بار | ||
نہ ہوگا وہ ساماں ، نہ وہ سر ہے کل | ||
نہ ہووے گا سادات میں مرد ایک | ||
مگر عابدیں ؑزار اور زرد ایک | ||
زمیں سے اٹھے گی سیہ گرد ایک | ||
سپہرِ بریں تک مکدر ہے کل | ||
سرِ شہ سناں پر رکھا جاوے گا | ||
لٹا قافلہ بھی چلا جاوے گا | ||
بس اب مت لکھے کیا لکھا جاوے گا | ||
زمانہ ہی اے میرؔ دیگر ہے کل[18] |
حوالہ جات
- ↑ مراثی میر کے مؤلف کا کہنا ہے کہ یہ مرثیہ بشکریہ سکریٹری انجمن ترقی اردو (ہند) اردو جنوری 1931ء سے یہاں پیش کیا گیا۔
- ↑ بڑی، زبردست
- ↑ گڑ بڑ، رستخیز
- ↑ تاج
- ↑ بڑا خیمہ جو سب کے بیچ میں نصب کیا جاتا ہے۔
- ↑ شان و شوکت
- ↑ انصاف
- ↑ مددگار
- ↑ کٹ جانا
- ↑ حرم کے لوگ
- ↑ جگہ کو دلی والے جاگہ بولتے ہیں۔
- ↑ دوا
- ↑ شکوہ، حشمت
- ↑ ہمرنگ یاقوت
- ↑ مانگ
- ↑ چادر
- ↑ ردیف میں تقریبا ہر بند میں "ہوگا یا ہوگی" کی جگہ "ہے" استعمال کیا گیا ہے۔
- ↑ سید مسیح الزماں، مراثی میر: پانچواں مرثیہ، ص71
مآخذ
- سید مسیح الزماں، مراثی میر، لکھنؤ، انجمن محافظ اردو ، 1951ء.