فلک قتل سبط پیمبر ہے کل

شیعہ اشعار سے
نظرثانی بتاریخ 21:40، 6 نومبر 2023ء از Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («{{جعبه اطلاعات شعر | عنوان = | تصویر = | توضیح تصویر = | شاعر کا نام = میر تقی میر | قالب = رباعی | وزن = فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعَل | موضوع = مصائب کربلا | مناسبت = روز عاشورا | زبان = اردو | تعداد بند = 16 بند | منبع = }} '''فلک قتلِ سبط ِپیمبر ہے کل:'''...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
فلک قتل سبط پیمبر ہے کل
معلومات
شاعر کا ناممیر تقی میر
قالبرباعی
وزنفَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعَل
موضوعمصائب کربلا
مناسبتروز عاشورا
زباناردو
تعداد بند16 بند


فلک قتلِ سبط ِپیمبر ہے کل: میر تقی میر دہلوی کا تصنیف کردہ مرثیہ ہے۔

تعارف

مکمل کلام

[1]
فلک قتلِ سبط ِپیمبر ہے کل
یہ ہنگامہ ہونا مقرر ہے کل
سحر شامِ تیرہ سے بدتر ہے کل
بلا [2]کل [3]مکل ہے کہ محشر ہے کل
کہاں ہوگا افسر[4] سرِ شہ کہاں !
یہ خیمہ کہاں اور خرگہ [5]کہاں !
جو کچھ ہے حشم[6] آج، سو یہ کہاں !
نہ حاکم، نہ یاور، نہ داور ہے کل
نہ ہوگا کوئی جو کرے داوری[7]
رہے گی وہ لاش اس زمیں پر پڑی
نگہبان ہوگا خدائے قوی
مصیبت عجب ایک اس پر ہے کل
نہ ہوگا کوئی یار و انصار ،آہ !
نہ خویش و برادر، نہ رتبہ ،نہ جاہ
مرے گا بہت ہوکے بیکس، وہ شاہ
نہ قاسم ؑنہ اکبر ؑنہ اصغر ؑہے کل
جو بازو [8]ہیں جاویں گے سب دے کے جاں
نظر جس کے اوپر کرے سو کہاں
ستم ہوگا چاروں طرف سے عیاں
نہ احمدؐ معاون ،نہ حیدر ؑہے کل
نہ عباس ؑہوگا نہ ہوگا علم
کہ ہاتھ اس کا بازو سے ہوگا قلم [9]
رہیں گے جو پیچھے کسانِ حرم [10]
سو ان کو نہ جاگہ[11] نہ گھر در ہے کل
سرِ شہ نہ ہوگا یہ اَسرار ہے
کسانِ حرم اور بازار ہے
رہے گا جو سجادؑ بیمار ہے
سو اس کو نہ دارو [12]نہ بستر ہے کل
معزز حرم کے رہیں گے جو لوگ
پریشاں پھریں گے گرفتار سوگ
اسیری و غارت سے چالوں کو روگ
نہ پردہ انھوں کو نہ چادر ہے کل
جہاں جائے عبرت ہے کیا اعتبار
ہمیشہ نہیں ایک کا اختیار
شکستِ شہِ دیں سے ہے آشکار
نہ وہ کوکبہ[13] ہے نہ لشکر ہے کل
دمِ آب ہووے گا نایاب وہاں
نہ کنبہ ،قبیلہ، نہ احباب وہاں
نہ دولت سرا وہ نہ اسباب وہاں
نہ ساماں ، نہ سر ہے ، نہ سرور ہے کل
تن نازنیں ہوگا گھائل تمام
بلا ہوگا اس ایک پر اژدہام
جبیں سے بہے گا لہو لعل فام [14]
گلوئے مبارک پہ خنجر ہے کل
بچے گا جو بیٹا سو ہوگا اسیر
عزیزِ حرم سب بہ حالِ تغیر
بکا کرتے ہیں ہوں گے صغیر و کبیر
کہاں ایسی غارت سے وہ گھر ہے کل
سکینہ ؑکہے گی پدر کیا ہوا
کرے دل دہی جو گلے سے لگا
نہ کلثوم ؑکے پاس ہوگی ردا
نہ زینب ؑکے تارک[15] پہ معجر [16]ہے [17]کل
قیامت ہے اودھر کو ہوگا گزار
جدھر اس طرح کا ہوا کارزار
نظر آوے گی لاشِ شہ ایک بار
نہ ہوگا وہ ساماں ، نہ وہ سر ہے کل
نہ ہووے گا سادات میں مرد ایک
مگر عابدیں ؑزار اور زرد ایک
زمیں سے اٹھے گی سیہ گرد ایک
سپہرِ بریں تک مکدر ہے کل
سرِ شہ سناں پر رکھا جاوے گا
لٹا قافلہ بھی چلا جاوے گا
بس اب مت لکھے کیا لکھا جاوے گا
زمانہ ہی اے میرؔ دیگر ہے کل[18]

حوالہ جات

  1. مراثی میر کے مؤلف کا کہنا ہے کہ یہ مرثیہ بشکریہ سکریٹری انجمن ترقی اردو (ہند) اردو جنوری 1931ء سے یہاں پیش کیا گیا۔
  2. بڑی، زبردست
  3. گڑ بڑ، رستخیز
  4. تاج
  5. بڑا خیمہ جو سب کے بیچ میں نصب کیا جاتا ہے۔
  6. شان و شوکت
  7. انصاف
  8. مددگار
  9. کٹ جانا
  10. حرم کے لوگ
  11. جگہ کو دلی والے جاگہ بولتے ہیں۔
  12. دوا
  13. شکوہ، حشمت
  14. ہمرنگ یاقوت
  15. مانگ
  16. چادر
  17. ردیف میں تقریبا ہر بند میں "ہوگا یا ہوگی" کی جگہ "ہے" استعمال کیا گیا ہے۔
  18. سید مسیح الزماں، مراثی میر: پانچواں مرثیہ، ص71

مآخذ

  • سید مسیح الزماں، مراثی میر، لکھنؤ، انجمن محافظ اردو ، 1951ء.