کرتا ہے یوں بیان سخن ران کربلا
معلومات | |
---|---|
شاعر کا نام | میر تقی میر |
قالب | رباعی |
وزن | مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
موضوع | واقعہ کربلا |
زبان | اردو |
تعداد بند | 39 بند |
کرتا ہے یوں بیان سخن رانِ کربلا: میر تقی میر دہلوی کا تصنیف کردہ مرثیہ ہے۔
تعارف
اس مرثیے میں حضرت امام حسین ؑ کی شہادت اور جناب سید سجادؑ سمیت حضرت زینب و ام کلثوم سلام اللہ علیہما کے بین کا تذکرہ ہے۔ ساتھ ساتھ اردو کے قدیم الفاظ قابل مشاہدہ ہیں۔
مکمل کلام
کرتا ہے یوں بیان سخن ران کربلا | ||
احوال زار شاہ شہیدان کربلا | ||
باآنکہ تھا فرات پہ میدان کربلا | ||
پیاسا ہوا ہلاک وہ مہمان کربلا | ||
انصاف کی نہ ایک نے کی چشم نیم باز | ||
کھولے ستم کے ہاتھ زبانیں کیاں دراز | ||
قتل امام مقصد و تیاری نماز | ||
بدتر تھے کافروں سے مسلمان کربلا | ||
سیلاب تھا بلا کا ہر اک سمت گرم جوش | ||
فریاد بیکساں کی طرف کم کسو کے گوش | ||
آل نبی تمام ہوئی خوں سے سرخ پوش | ||
صلوات بر حسین ؑو جوانان کربلا | ||
انواع جور مدعی ایجاد کر گئے | ||
تخت و کلاہ احمدیؐ برباد کر گئے | ||
کیا تیرہ روز شامی بھی بیداد کر گئے | ||
پایا زبون مور سلیمان کربلا | ||
منصف تھے ہائے کتنے دروں تیرہ اہل شام | ||
خوش تشنہ لب جنھوں نے کیا کشتن امام | ||
فخر بشر کا نور دل و دیدہ تشنہ کام | ||
سیراب وحش و طائر و حیوان کربلا | ||
یارب نہ تھا سپہر پہ اس وقت کوئی بھی کیا | ||
جب سر پہ اہل بیت کے تھی اس قدر جفا | ||
ہوتا کوئی تو دیکھتا ہی سر کو تنک جھکا | ||
تا لامکاں تھا شور غریبان کربلا | ||
نوک سناں پہ رکھ کے چلے لے سر امام | ||
ناموس کے جو لوگ تھے بندے ہوئے تمام | ||
ٹکڑے جگر کے ہوتے تھے کرتا تھا جب کلام | ||
بے خانماں وہ جمع پریشان کربلا | ||
بیٹے بھتیجے اس کے جواں مارے سب پڑے | ||
ہو ٹکڑے ٹکڑے سامنے بیکس بہت لڑے | ||
فرصت نہ اتنی دی کہ کوئی خاک میں گڑے | ||
پوشیدہ کیا ہے ظلم نمایان کربلا | ||
سر اس کا کٹ کے نیزے پہ جس دم رکھا گیا | ||
لو بیڑہ پانی چڑھ کے جیوں کو ڈبا گیا | ||
ہرچند بوند پانی کی کوئی نہ پا گیا | ||
لیکن خدا کا قہر تھا طوفان کربلا | ||
تھی عابدیں کے لب پہ شکایت یہ خونچکاں | ||
کاے چرخ آہ کیونکہ نبھے گا یہ کارواں | ||
یہ سب ہیں زیربار الم میں ہوں ناتواں | ||
طے کس طرح سے کریے بیابان کربلا | ||
مشفق پدر تو رخت سفر کر گیا ہے بار | ||
بھائی کو اس سے آگے ہی تھی دشمنوں کی مار | ||
ہوں میں برہنہ پا سو مرض سے نحیف و زار | ||
پھر ہر قدم پہ خار مغیلان کربلا | ||
ہے تودہ تودہ لاشوں پہ جن کی یہ خاک دھول | ||
سب یہ شگفتہ رو تھے نگاہوں میں جیسے پھول | ||
منھ دیکھ ان کے کہتے تھے صلواۃ بر رسولؐ | ||
گلزار تھی یہ وادئ ویران کربلا | ||
اب سب ہی خاک و خون میں وہی ہیں اٹے پڑے | ||
اشجار و نونہال ہیں سارے کٹے پڑے | ||
دل ہیں فگار سینے ہیں سب کے پھٹے پڑے | ||
مسلخ [1]سے کم نہیں یہ گلستان کربلا | ||
جل جل کے ایک ایک سے اس کا تھا یہ خطاب | ||
کاے قوم بس بہت ہوئے اب کم کرو عذاب | ||
پہلو سے میرے ہے جگر دشت بھی کباب | ||
رکھ ہاتھ دیکھ سینۂ بریان کربلا | ||
یہ آگے جانتے نہ تھے دیکھیں گے یہ ستم | ||
خون پدر گرے گا زمیں پر کریں گے دم | ||
اندوہ و درد و رنج و الم اب ہے اور ہم | ||
خرد و کلاں ہیں کشتۂ احسان کربلا | ||
موقوف غم نہ ہوگا یہ جب تک کہ ہوں گا میں | ||
مدت تلک مصیبتیں اپنی کہوں گا میں | ||
جیتا رہوں گا جب تئیں روتا رہوں گا میں | ||
اب تھم چکے یہ دیدۂ گریان کربلا | ||
زینبؑ کے لب سے حرف نکلتے تھے شکوہ ناک | ||
آشفتہ مو وہ سر پہ کھڑی ڈالتی تھی خاک | ||
کہتی تھی تا سپہر مگر اے خدائے پاک | ||
جاتے نہیں یہ نالہ و افغان کربلا | ||
شاید غبار رکھتی ہیں چشمان مہر و ماہ | ||
احوال پر ہمارے نہیں مطلقاً نگاہ | ||
پردہ رہے جو گر پڑے گردونِ روسیاہ | ||
ہیں سربرہنہ خاک نشینان کربلا | ||
باد شمال[2] ظلم ادھر کو جو آگئی | ||
ایک ایک کرکے دین کی شمعیں بجھا گئی | ||
دل داغ سارے کر گئی سینے جلا گئی | ||
سب اڑ گئی وہ خوبی ایوان کربلا | ||
پیٹے ہیں ہم حسین ؑکو جو کھول کھول بال | ||
کیا خاطروں سے جاتے رہیں گے ہمارے حال | ||
اشجار بید کے جو ہیں سو سالہاے سال | ||
دیویں گے یاد یہ سر عریان کربلا | ||
کرتے جو نوحہ لاشوں پہ ہم جمع آ ہوئے | ||
آنکھوں سے دل کے ٹکڑے گرے بال وا ہوئے | ||
بے جا ہمارے شور سے وحشی بجا ہوئے | ||
دیواں ہوا ہے حشر کا دیوان کربلا | ||
اس لوٹے کاروان کا دیکھے کوئی گذار | ||
یہ سانحہ ہوا ہے زمانے کا یادگار | ||
عترت نبیؐ کی اونٹوں پہ ہے ننگے سر سوار | ||
سجادِؑ نالہ کش ہے حدی خوان کربلا | ||
وارث[3] کے پیچھے جانیں گئیں وسوسوں سے ہائے | ||
کیا طرحیں چرخ کرتے ہیں ہم بیکسوں سے ہائے | ||
کیسی کمی اٹھائی ہے ہم نے خسوں سے ہائے | ||
کس سے کہیں یہ درد فراوان کربلا | ||
ناگہ نگہ جو لاش پہ قاسمؑ کی جا پڑی | ||
ساعت وہ گزری اہل حرم پر بہت کڑی | ||
ماں اس کی سر کو پیٹے کہے تھی یہی کھڑی | ||
ہے دیدنی یہ نوشہ بے جان کربلا | ||
چن چن کے دشمنوں نے عزیزوں کے کاٹے سر | ||
مارا پڑا رئیس تلف ہوگئے پسر | ||
سر پر نہ عورتوں کے ردا تھی نہ ان کو گھر | ||
آئی نہ کام ہمت مردان کربلا | ||
آیا جو شاہ یاں تو یہیں کا یہیں رہا | ||
انواع جور و ظلم و ستم جان پر سہا | ||
آخر کو خون اس کا یہیں خاک پر بہا | ||
نکلا نہ پھر وہ یوسف زندان کربلا | ||
آنکھوں کو جس کی رہ میں بچھایا کیے ہیں ہم | ||
منت سے جس کے ناز اٹھایا کیے ہیں ہم | ||
مسند پہ ناز کی سے بٹھایا کیے ہیں ہم | ||
سو خاک میں پڑا ہے وہ سلطان کربلا | ||
یہ مردمی تو دیکھو کہ دریا بہا کیا | ||
خیمہ کنارے پر کھڑا اس کا رہا کیا | ||
شہ بہرِ طفل پانی ہی پانی کہا کیا | ||
پیاسا موا ندان وہ نادان کربلا | ||
بالفرض دشمنوں نے نہ کی اس طرف نظر | ||
کینہ سے ہونٹ سوکھے ہمارے نہ چاہے تر | ||
اک ابر بھی نہ آن کے برسا تنک ادھر | ||
تا آسماں تھی شورش عطشان کربلا | ||
کلثومؑ یوں تھی لاش پہ بھائی کی حرف زن | ||
سر کیا ہوا کہ خاک میں پامال ہے بدن | ||
پھر وجہ کیا کہ اب نہیں ملتا تجھے کفن | ||
اے بادشاہ بے سر و سامان کربلا | ||
ہم کچھ کریں جو فکر سو قدرت نہیں ہمیں | ||
ماتم میں تیرے بیٹھیں سو فرصت نہیں ہمیں | ||
میت کی رسمیں کرتے سو مہلت نہیں ہمیں | ||
رسوائی کر رہے ہیں نگہبان کربلا | ||
مہمانی ہم مسافروں کی کیا رہی ہے یاں | ||
لخت دل و جگر تھے جو مارے پڑے جواں | ||
جانا نہ ہم نے یاں کا دم آب و پارہ ناں | ||
دیکھی سو اب یہ نعمت الوان کربلا | ||
اس [4]خاک پر اترتے نہ فرصت تجھے رہی | ||
درپیش ہر قدم پہ قیامت تجھے رہی | ||
بے دینوں سے یہاں کے کدورت تجھے رہی | ||
شائستگی مگر نہ تھی شایان کربلا | ||
ہوئے خوشی کسو کو تو ہوئے شگفتہ رو | ||
شادی ہو جان کو تو کرے ہنس کے گفتگو | ||
تھی رونے کی جگہ کہ بخود ہم نہ تھے نہ تو | ||
لب ہاے زخم تھے لب خندان کربلا | ||
ہفتم سے آب و دانہ کا قدغن[5] ہوا تھا یاں | ||
جز ذکر تیغ تیز کچھ آیا نہ درمیاں | ||
سادات کشتہ جانتے ہیں یا انھوں کی جاں | ||
جو دیکھ کر موئے ہیں یہ حرمان کربلا | ||
کروبیوں[6] کے گوش مگر کر تھے اس گھڑی | ||
جس وقت کشت و خون کی یاں دھوم تھی پڑی | ||
صف عورتوں کی لاشوں پہ چلاتی تھی کھڑی | ||
محشر پہ بر تھا ہر دل نالان کربلا | ||
یاں [7]سے نہیں چلے ہیں ہم ایسے ہو پائمال | ||
جو خاطروں سے اپنے فراموش ہو یہ حال | ||
اب جاچکی دلوں سے یہ حیرانی و ملال | ||
رہیے گا زندگی تئیں حیران کربلا | ||
القصہ پیٹ روکے گئے آگے وے اسیر | ||
دل چاک سر میں خاک جواں اور خرد و پیر | ||
بس تو بھی اپنے ہاتھ سے رکھ کر قلم کو میرؔ | ||
کہہ باد سے کہ ہوئے گل افشان کربلا | ||
بعد از نماز و سجدہ کرے در پہ التماس | ||
کاے شاہ بندہ پرور و قدر گداشناس | ||
مقصود میرؔ یہ ہے کہ اب ترک کر لباس | ||
چوں زائران چاک گریبان کربلا | ||
ہندوستاں سے قطرہ زن آوے چلا ہوا | ||
مانند ابر چند پھرے دل بھرا ہوا | ||
تو ملتفت ہوا کہ یہ مطلب روا ہوا | ||
دیوے گا پھر نہ ہاتھ سے دامان کربلا[8]،[9] |
حوالہ جات
- ↑ جہاں جانور ذبح کئے جاتے ہیں
- ↑ یہ مرثیہ رسالہ"اردو" میں چھپ چکا ہے ، لیکن اُس میں یہ بند شامل نہیں
- ↑ "اردو" میں یہ بند نہیں ہے
- ↑ یہ بند بھی"اردو" میں نہیں
- ↑ ممانعت، پابندی
- ↑ یہ بند نہ "اردو" میں ہے نہ "نیرنگ" رام پور میں۔
- ↑ یہ بند "اردو" میں شامل نہیں۔
- ↑ یہ مرثیہ"اردو" 1931ء اور "نیرنگ" تنقید نمبر 1929ء میں با استثناء چند بندوں کے شائع ہو چکا ہے۔
- ↑ سید مسیح الزماں، مراثی میر: اکیسواں مرثیہ، ص148
مآخذ
- سید مسیح الزماں، مراثی میر، لکھنؤ، انجمن محافظ اردو ، 1951ء.