"شبیر زمانے میں رسالت کی زباں ہے" کے نسخوں کے درمیان فرق
Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («{{جعبه اطلاعات شعر | عنوان = | تصویر = | توضیح تصویر = | شاعر کا نام = محسن نقوی | قالب = غزل | وزن = مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن | موضوع = مصائب کربلا و اسیری | مناسبت = | زبان = اردو | تعداد بند = 7 بند | منبع = }} '''شبیر ؑ زمانے میں رسالت کی زباں ہے:''' ح...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا) |
Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 14: | سطر 14: | ||
'''شبیر ؑ زمانے میں رسالت کی زباں ہے:''' حماد اہل بیت ؑ سید [[محسن نقوی]] کا لکھا ہوا سلام ہے۔ | '''شبیر ؑ زمانے میں رسالت کی زباں ہے:''' حماد اہل بیت ؑ سید [[محسن نقوی]] کا لکھا ہوا سلام ہے۔ | ||
==تعارف== | ==تعارف== | ||
عنوان کلام اگرچہ مطلع کا دوسرا مصرع ہے، لیکن اس مصرعے | عنوان کلام اگرچہ مطلع کا دوسرا مصرع ہے، لیکن اس مصرعے کی شہرت کے باعث اسے عنوان بنایا گیا ہے۔ اس کلام میں محسن نقوی نے جلتے خیموں کے دھوئیں اور بازار میں جناب زینب ؑ کی تنہائی کے احساس کو پرسوز انداز میں بیان کیا ہے۔ | ||
==مکمل کلام== | ==مکمل کلام== | ||
{{شعر}} | {{شعر}} |
نسخہ بمطابق 22:09، 3 نومبر 2023ء
معلومات | |
---|---|
شاعر کا نام | محسن نقوی |
قالب | غزل |
وزن | مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن |
موضوع | مصائب کربلا و اسیری |
زبان | اردو |
تعداد بند | 7 بند |
شبیر ؑ زمانے میں رسالت کی زباں ہے: حماد اہل بیت ؑ سید محسن نقوی کا لکھا ہوا سلام ہے۔
تعارف
عنوان کلام اگرچہ مطلع کا دوسرا مصرع ہے، لیکن اس مصرعے کی شہرت کے باعث اسے عنوان بنایا گیا ہے۔ اس کلام میں محسن نقوی نے جلتے خیموں کے دھوئیں اور بازار میں جناب زینب ؑ کی تنہائی کے احساس کو پرسوز انداز میں بیان کیا ہے۔
مکمل کلام
اس نہج پہ انسان نے سوچا ہی کہاں ہے؟ | شبیر ؑ زمانے میں رسالت کی زباں ہے | |
یہ ابر کا ٹکڑا جو بکھرتا ہے فضا میں | سادات کے جلتے ہوئے خیموں کا دھواں ہے | |
بہنے لگا ہر ظلم مثالِ خس و خاشاک | زینب ؑ تِری تقریر بھی اِک سیلِ رواں ہے | |
شبیر ؑ کی آواز جو گونجی سرِ مقتل | زینب ؑ یہی سمجھی، علی اکبر ؑ کی اذاں ہے | |
کیوں برق سی گرتی ہے سرِ لشکرِ اعداء | اصغر ؑ کے لبوں پر تو تبسم کا نشاں ہے | |
بازار کے ہر موڑ پہ زینب ؑ نے صدا دی! | سجاد ؑ سے پوچھو، مِرا عباس ؑ کہاں ہے | |
شبیر ؑ کا غم بھول کے دنیا کی خبر لے | محسنؔ کو ابھی اتنی فراغت ہی کہاں ہے[1] |
حوالہ جات
- ↑ محسن نقوی، موجِ ادراک: ص145
مآخذ
- محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، ۲۰۰۷م.