"جب اصغر معصوم ؑکی گردن پہ لگا تیر" کے نسخوں کے درمیان فرق

شیعہ اشعار سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
سطر 3: سطر 3:
  | تصویر =  
  | تصویر =  
  | توضیح تصویر =  
  | توضیح تصویر =  
  | شاعر کا نام = میر خلیق
  | شاعر کا نام = میر مستحسن خلیؔق
  | قالب = مسدس
  | قالب = مسدس
  | وزن = مفعول مفاعیل مفاعیل فعُولن
  | وزن = مفعول مفاعیل مفاعیل فعُولن

حالیہ نسخہ بمطابق 21:23، 12 دسمبر 2023ء

جب اصغر معصوم ؑکی گردن پہ لگا تیر
معلومات
شاعر کا ناممیر مستحسن خلیؔق
قالبمسدس
وزنمفعول مفاعیل مفاعیل فعُولن
موضوعشہادت علی اصغر ؑ
زباناردو
تعداد بند40 بند


جب اصغر معصوم ؑکی گردن پہ لگا تیر: جناب میر خلیق کا رقم کردہ مرثیہ ہے۔

تعارف

یہ مرثیہ "مراثی میر خلیق" کا تیسواں مرثیہ ہے جس میں حضرت علی اصغر ؑ کی شہادت کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔

مکمل کلام

جب اصغر معصوم کی گردن پہ لگا تیراور شاہ کے بازو میں بھی پیوست ہوا تیر
ہاتھوں پہ تڑپنے لگا بچہ بھی جو کھا تیرشہ ؑنے کہا اس پیاسے کو تھا مارنا کیا تیر
کب ہم نے کہا تھا کہ زبردستی سے لیں گے
اتنا ہی کہا ہوتا کہ ہم پانی نہ دیں گے
یہ جانتے تو خیمے سے لاتے نہ اسے ہم تم نے ہمیں محجوب کیا بانو سے اس دم
یہ کہتے تھے ملعونوں سے بادیدۂ پرنم جو ہاتھوں یہ معصوم تڑپ کر ہوا بے دم
فرمایا اسے پہلوئے اکبر میں لٹا کر
تم ڈریو نہ اب ہم بھی یہیں سوتے ہیں آکر
بن ماں تم اکیلے کبھی سوئے نہیں اصغر جنگل میں اکیلا تمہیں چھوڑوں گا میں کیوں کر
پھر قبلے کی جانب یہ کہا ہاتھ اٹھا کر سب فانی ہیں تو باقی ہے اے خالق اکبر
کیا کیا ہوئے مجھ پر ہیں ستم اہل جفا سے
پر پاؤں نہیں میرا ڈگا راہ رضا سے
کام آئے تری راہ میں انصار بھی سارے اور بیٹے جو زینب کے تھے بیٹوں سے بھی پیارے
وہ دونوں مری آنکھوں کے آگے گئے مارے سرپر مرے سر بیٹوں نے مسلم کے بھی مارے
گر کوئی میرا یار و مددگار نہیں ہے
جز تیری مدد کچھ مجھے درکار نہیں ہے
جب میرے عزیزوں پہ چلی ظلم کی تلوار بندہ یہی کہتا رہا جو مرضئ غفار
قاسم ؑسے بھی جب پیارے بھتیجے کو لیا مار اور نہر پہ مارے گئے عباسِؑ علمدار
بھائی کے لیے پہلے تو روتا تھا قلق میں
پھر سمجھا کہ بہتر یہی ہوگا مرے حق میں
نیزہ علی اکبر ؑکی جو چھاتی میں لگا تھا روتا ہوا میں لاش یہ اس کی تو گیا تھا
ہمشکل محمدؐ کا وہ فرزند مِرا تھا تیری ہی عنایت تھی مرا سچ ہے کہ کیا تھا
تھی تجھ کو جو منظور خوشی ابن علیؑ کی
اٹھارہ برس اور زیارت کی نبیؐ کی
اصغر ؑبھی مِرا ہوگیا تیروں کا نشاناجنت کی طرف کردیا اس کو بھی روانا
صد شکر کسی کا نہیں اب داغ اٹھانا اپنا ہی گلا باقی ہے اب مجھ کو کٹانا
قاتل جو رواں خنجر برّان کرے گا
وہ بھی مِری مشکل تو ہی آسان کرے گا
کیا کرتا اگر صاحب اولاد نہ ہوتا ہیں لاولد اکثر ترے بندے مِرے مولا
مجھ پر تو عنایت ہی ترا فضل و کرم تھا بیٹے بھی دئیے رتبہ امامت کا بھی بخشا
صابر بھی ہوئے اور انہیں جانباز بھی دیکھا
رفعت سے شہادت کی سرافرار بھی دیکھا
ہر مو کی جگہ تن پہ اگر میرے زباں ہو کب بندہ نوازی کا تری مجھ سے بیاں ہو
راحت ہے اگر حلق پہ خنجر بھی رواں ہو تیروں کے مزے سے کبھی خاطر نہ نشاں ہو
عرفاں کے مزے کو ہے مرا دل ہی سمجھتا
لذت کو تڑپنے کی ہے بسمل ہی سمجھتا
کی بھوک میں اور پیاس میں خاطر مری کیا کیافاقے میں طبق خلد سے نعمت کا ہے بھیجا
چھٹپن میں جو روزہ رکھا ماہِ رمضاں کا تجھ کو نہ گوارا ہوا پیاسا مرا رہنا
رحم آیا تجھے دیکھ صغیری مرے سن کی
خورشید چھپا رات وہیں ہوگئی دن کی
اور آج کئی دن کا جوہوں بھوکا پیاساکیا جانئے کیا مصلحت اس میں ہے سمجھتا
بندہ ہوں ترے امر میں ہے دخل مجھے کیاتشویش بھی بے جا ہے تردد بھی ہے بے جا
خوشنودی مجھے تیری ہی مطلوب ہے یارب
جو کچھ تیری مرضی ہے وہی خوب ہے یارب
اعدا سے پھر اس طرح سے کہنے لگے سرور کیا مجھ کو سمجھتے نہیں تم سبط پیمبرؐ؟
میں جھوٹ ہوں کہتا؟ نہیں زہراؑ مری مادر؟ملعونو! نہیں میں پسر حیدرؑ صفدر ؟
انکار ہے تم کو مری عالی نسبی کا؟
کوئی نہیں شبیرؑ رسول عربی کا؟
ملعون سبھی ایک زباں ہوکے پکارے
اور فاطمہ زہراؑ کے ہو تم بیٹے پیارے
بچ جاؤ گے بیعت میں جو حجت نہ کرو گے
اور اس میں تامل ہے جو جیتے نہ بچو گے
یہ سن کے سر اس شاہ نے پہلے تو جھکایاپھر یوں عمر و شمرِ ستمگر کو سنایا
میں تین سوال اس گھڑی تم پاس ہوں لایااک ان میں سے یہ کہتا ہوں میں زہراؑ کا جایا
ناموس پیمبرؑ کہیں لے جانے دو مجھ کو
اب یاں سے کسی سمت نکل جانے دو مجھ کو
مارے ہیں جو تم نے مرے خویش و پسر و یاراس خوں کا عوض تم سے نہیں لینے کا زنہار
اس واسطے اس امر کو کرتا ہوں میں اظہار تا خون میں اپنے نہ ہوں میں آپ گرفتار
اکبرؑ نہ ہو قاسمؑ نہ ہو عباسؑ نہ ہوئے
وہ خاک جئے جس کے کوئی پاس نہ ہوئے
فرما چکے جب شاہ تو ایک ایک یہ بولا جانے دیں کہیں آپ کو یہ ہم سے نہ ہوگا
مظلومی سے پھر کہنے لگا وہ شہِ ؑ والا گریہ نہ ہو تو پانی پلا دو مجھے تھوڑا
وہ کہنے لگے یہ بھی نہیں ہوئے گا ہم سے
ہاں پانی پلادیں گے دم تیغ دو دم سے
شہؑ نے کہا ہونٹوں پہ زباں سوکھی پھرا کر حاضر ہوں کرو ذبح و لے پانی پلا کر
تب بولے لعیں شمرِ ستمگر کو سنا کر اک جام پلا دیویں انہیں نہر سے لاکر
وہ بولا جو پانی کی مدد ہوگی ادھر سے
پھر لڑ سکو گے ساقی کوثر کے پسر سے ؟
شہؑ نے کہا گر پانی پلانا بھی ہے دشوار تو اس گھڑی حملہ نہ کرو مجھ پہ سب اک بار
ایک ایک لڑو مجھ سے تم اے قومِ ستمگار وہ بولے کہ تم ہو خلف حیدرؑ کرار
کثرت یہ ہے دم اس پہ کسی کے نہیں دم میں
ایک ایک لڑیں تم سے یہ طاقت نہیں ہم میں
فرزند ہو تم اس کے جو تھا قاتل عنتر والد نے تمہارے ہے اکھاڑا درِ خیبر
پائی ہی نہیں فتح کسی فوج نے اس پر فرزند سے ایسے کے کوئی لڑ سکے کیوں کر
جرات ہے وہی تم میں وہی شوکت و شاں ہے
قبضے میں تمہارے وہی سیف دو زباں ہے
شہؑ سمجھے کہ ایک ایک نہیں لڑنے کا ہم سے کیا غم ہے کہ ہم سب سے اکیلے ہی لڑیں گے{{{2}}}
پھر سوئے فلک ہاتھ اٹھا کر لگے کہنے میں کہہ چکا اعدا سے ترے حکم کے نکتے
اے خالق اکبر کوئی منت نہیں باقی
شاہد مرا تو رہیوکہ حجت نہیں باقی
یہ کہہ کے پڑھا فاتحہ اور تیغ علم کیآنکھوں میں ستمگاروں کی اک بجلی سی چمکی
بھاگی ہوئی سب جمع ہوئی فوج ستم کیاس وقت کی کیا شان کہوں شاہ ِامم کی
خیبر میں جو کچھ حیدر کرار ؑ کی سج تھی
اس روز وہی زہراؑ کے دلدار کی سج تھی
عمامۂ محبوبِ خدا سر پہ بندھا تھا پیشانئ روشن نہ تھی مہ جلوہ نما تھا
ابرو کو عجب خم یدِ قدرت کے دیا تھا آنکھوں پہ دلِ فاطمہؑ سوجی سے فدا تھا
افروختہ تھا صورت گل روئے مبارک
سنبل سے پڑے دوش پہ گیسوئے مبارک
گل برگ سے لب سوکھے ہوئے پیاس کے مارےکوثر کے قریب اور لبِ دریا سے کنارے
ہتھیار دلیرانہ لگائے ہوئے سارے پر دل کو یہ دھڑکا کہ سکینہ ؑنہ پکارے
پیاسی تھی وہ معصومہ جو چوبیس پہر سے
خیمے کی طرف تکتے تھے حسرت کی نظر سے
جب فوج نے نرغہ کیا اس شاہ پہ اک بارتب ان میں دھنسا وہ خلف حیدر کردار
دریا بہا اک خون کا، کی ایسی ہی تلوار گھبرا کے پکارا عمرِ سعدِ ستمگار
یوں مت لڑو تلوار نہیں کھائے گا شبیرؑ
تیروں کے سوا مار نہیں کھائے گا شبیرؑ
یہ سن کے کمانداروں ہی پر جا پڑے شبیرؑاس شاہ پہ پہلے ہی چلے تھے کئی سو تیر
بجلی سی چمکنے جو لگی حیدری شمشیرآگے سے کہیں بھاگنے پائے نہ وہ بے پیر
کاہے کو کبھی ایسے بہادر سے لڑے تھے
میداں میں کماندار تہی دست پڑے تھے
ترکش کہیں بکھرے تھے کہیں تیر زمیں پراور ساتھ کمانوں کے گرے ہاتھ بھی کٹ کر
افتادہ کہیں بازو کہیں پاؤں کہیں سر کچھ پھینک کمانوں کے تئیں بھاگے بد اختر
کچھ ایسے مسلح تھے کہ لوہوں پہ چھپے تھے
پر خوف سے سہمے ہوئے گوشوں میں چھپے تھے
تھے تیروں کے تو زخم تن شاہ پہ اکثر تلواریں بھی اور برچھیاں بھی پڑتی تھیں تن پر
زخموں کے سبب خون میں گھوڑا بھی ہوا تر کہنے لگے اعدا سے مخاطب ہو یہ سرور ؑ
ہر کس بلبِ مالبِ ساغر برساند
ساغر بلبش ساقی کوثر برساند
اعدا نے کہا پانی کا زنہار نہ لو نامہاتھ آوے گا فردوس میں کوثر کا تمہیں جام
گوجان چلی جاتی ہے پر پیاس کو لو تھاماس بات کو بس سنتے ہی پھر تول کے صمصام
ایسے لڑے جو فوج کئی بار ہٹائی
پانی جو ملا ہوتا تو تھی فتح لڑائی
پیاسے نے جو حملے کئے لشکر پہ کئی بار تھی دھوپ کڑی سوکھ گئے لعلِ گہربار
اور مارے پسینے کے لگا ہانپنے رہوار نزدیک تب آکر عمر ِسعد نے اک بار
ترغیب جو کی لشکر بے پیر کو آکر
پھر گھیر لیا فوج نے شبیر کو آکر
کہتا تھا سواروں سے پس پشت یہ ہر دمپھر تیر جوانو چلیں شبیرؑ پہ پیہم
بے حال ہے نہ پیاس ہے طاقت ہے بہت کملڑسکنے کا نہ تم سے نہیں کیجو نہ کچھ غم
گھوڑوں کو بڑھائے رہو پیچھے کو نہ سر کو
غش آتا ہے کوئی آن میں زہراؑ کے پسر کو
یہ سنتے ہی سب تیر لگے مارنے اک باراور اس تنِ تنہا پہ ہوئی تیروں کی بوچھار
تن چھن گیا ہر زخم سے لوہو کی چھٹی دھارسنبھلا نہ گیا گھوڑے پہ اس زخمی سے زنہار
گہرے تھے زبس زخم تنِ سرورِ دیں پر
غش آگیا مظلوم کو گرتے ہی زمیں پر
زخمی نے بہت آپ کو اٹھ اٹھ کے سنبھالاپر ضعف جو تھا لیٹ گیا وہ شہِ والا
غش میں بھی کئی بار لہو منہ سے جو ڈالاپھر ہل نہ سکا فاطمہؑ کی گود کا پالا
دکھلا کے عمر کہنے لگا شمرِ لعیں کو
اب تو حرکت بھی نہیں جسم شہِ دیں کو
تو کاٹے اگر تن سے سر سید مظلومؑاخبار میں ہو فتح تیرے نام پر مرقوم
رتبہ جو ترا ہوگا وہ تجھ کو نہیں معلومحاکم کے جو سر کردے ہیں ہوں گے تیرے محکوم
تو فرق بڑا پاوے گا آگے میں اور اب میں
عزت تری ہوئے گی شجاعان عرب میں
یہ سن کے وہ آگے بڑھا کھینچے ہوئے خنجراور شہ کی چڑھا چھاتی پہ گھوڑے سے اتر کر
مظلوم کو جب ذبح لگا کرنے ستمگرکس بے کسی سے دیکھتا تھا ہائے وہ سرورؑ
قاتل تھا چڑھا سینۂ صد چاک کے اوپر
خنجر سے ٹپکتا تھا لہو خاک کے اوپر
جس وقت جدا ہوگیا تن سے سر شبیرؑتب گیسو پکڑ شاہ کے وہ ظالم بے پیر
لٹکائے ہوئے سر کو اٹھا کر کے یہ تقریرخنجر سے ہوا ذبح عجب صاحب شمشیر
دلبندِ نبی ، ابنِ ید اللہ کو مارا
واللہ دو عالم کے شہنشاہ کو مارا
یہ کہہ کے چڑھایا سر شبیر ؑسناں پر وہ چاند سامنہ شاہ کا تھا خون میں سب تر
گالوں پہ لٹکتے ہوئے گیسوئے معنبرسجدے کا نشاں ماتھے پہ تھا غیرتِ اختر
نیزے پہ سرافراز تھا خیل شہدا میں
آنکھیں تھیں مندی ہلتے تھے لب یادِ خدا میں
پھر رن سے چلے خیمہ شبیرؑ پہ اعدا اور گھیر لیا بیبیوں کو باندھ کے حلقہ
جب بھاگنے کو ان کے نہ رکھا کوئی رستہ تب آگ قناتوں کو لگا شمر یہ بولا
اب ڈریو نہ کوئی لوٹ نہیں منع کسی کو
اب شوق سے سب لوٹ لو ناموس نبی ؐکو
ناگاہ لگی آگ قناتوں میں بھڑکنےاور جل کے سراچوں کے لگے بانس کڑکنے
بیوؤں کے کلیجے لگے سینوں میں دھڑکنےگرمی سے لگے گودیوں میں بچے پھڑکنے
ناموس نبیؐ پر عجب آفت کی گھڑی تھی
پر بی بی کا پردہ کیے ہر لونڈی کھڑی تھی
سجادؑ یہ کہتا تھا کہ بابا گیا مارابس سنتے ہی یہ بانو نے زیور کو اتارا
اسباب ہر اک رانڈ کا لٹنے لگا ساراجا بیٹھے زرومال سے سب کر کے کنارا
ہاتھوں کے تلے چہرے تھے ناموس نبی ؐکے
چادر بھی رہی نام کو سر پر نہ کسی کے
جب لوٹ چکے آل محمدؐ کو جفا کاراور آگ سے بھی جل چکے سب خیمۂ اطہار
پھر اونٹ سواری کے لیے لائے وہ اشرارسر ننگے ان اونٹوں پہ چڑھی عترتِ اطہارؑ
اب راہ کا احوال خلیقؔ آگے کہے کیا
کیا ظلم ہوئے رنج اسیروں نے سہے کیا[1]

حوالہ جات

  1. کشمیری، مراثیِ میر خلیؔق: ص449

مآخذ

  • کشمیری، اکبر حیدری (پروفیسر)، مراثی میر خلیؔق،کراچی، مرثیہ فاؤنڈیشن، 1418ھ/1997ء.