"رئیس امامت" کے نسخوں کے درمیان فرق

شیعہ اشعار سے
(«{{جعبه اطلاعات شعر | عنوان = | تصویر = | توضیح تصویر = | شاعر کا نام = محسن نقوی | قالب = مسدس | وزن = مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات | موضوع = امام حسن مجتبیٰ ؑ | مناسبت = | زبان = اردو | تعداد بند = 16 بند | منبع = }} '''ملکۂ عصمت:''' صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہر...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 12: سطر 12:
  | منبع =   
  | منبع =   
}}
}}
'''ملکۂ عصمت:''' صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا ؑ کی شان میں حماد اہل بیت ؑ سید [[محسن نقوی]] کا انتہائی خوبصورت کلام ہے۔  
'''رئیسِ امامت:''' حماد اہل بیت ؑ سید [[محسن نقوی]] کا حضرت امام حسن مجتبیٰ ؑ کے حضور ہدیہ عقیدت ہے۔  


==تعارف==
==تعارف==
اس مسدس کے ابتدائی مصرعوں میں اسم گرامی "فاطمہ زہراؑ" کے حروف کا مطلب عقیدت و تخیل کی زبانی بیان کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ جناب زہرا ؑ کی عظمت و منزلت کے بہت سے پہلوؤں خاص کر کے ان کی خاطر پیغمبر اکرم ؑ کا تعظیم کرنا، آپ ؑ کا مباہلہ میں شریک ہونااور شامل اصحاب کساء ہونا وغیرہ کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔
اس کلام میں سرکار امام حسن ؑ کے فضائل اور مقام و مرتبے کو خوبصورت الفاظ کا جامہ پہنا کر قاری تک پہنچانے کی سعی کی گئی ہے، البتہ آخری دو بند ربط مصائب پر مشتمل ہے۔
 


==مکمل کلام==
==مکمل کلام==

نسخہ بمطابق 15:43، 28 اکتوبر 2023ء

رئیس امامت
معلومات
شاعر کا ناممحسن نقوی
قالبمسدس
وزنمفعول فاعلات مفاعیل فاعلات
موضوعامام حسن مجتبیٰ ؑ
زباناردو
تعداد بند16 بند


رئیسِ امامت: حماد اہل بیت ؑ سید محسن نقوی کا حضرت امام حسن مجتبیٰ ؑ کے حضور ہدیہ عقیدت ہے۔

تعارف

اس کلام میں سرکار امام حسن ؑ کے فضائل اور مقام و مرتبے کو خوبصورت الفاظ کا جامہ پہنا کر قاری تک پہنچانے کی سعی کی گئی ہے، البتہ آخری دو بند ربط مصائب پر مشتمل ہے۔


مکمل کلام

لوحِ جہاں پہ فکر کی معراجِ فن کا ناملکھا ہے پنجتن ؑ کی حسیں انجمن کا نام
سوچا خزاں کے عہد میں جب بھی چمن کا نامآیا مِری زباں پہ اِمام حسن ؑ کا نام!
جس نے خدا کے دین کی صورت اُجال دی
وحشی دلوں میں امن کی بنیاد ڈال دی
سرچشمۂ نجاتِ بشر، حسنِ کردگارانسانیت کے باغ میں پیغمبرِ بہار
حاجت روا، حَسیں، وہ اَنا مست بردباروہ اَمن و عافیت کی حکومت کا تاجدار
تشبیہ دوں کسی سے مِری کیا مجال ہے؟
بس اتنا کہہ رہا ہوں، حسن ؑ بے مثال ہے
زہرا ؑ کا چاند، ابنِ علی ؑ، مصطفیٰ ؐ کا نورجس کی جبیں سے پھوٹ رہی ہے شعاعِ طور
رقصاں ہے جس کی آنکھ میں ادراک کا سرورجس کی ہر اِک ادا سے نمایاں نیا شعور
چپ رہ کے جس نے باگ حکومت کی موڑ دی
کھولی زباں تو ظلم کی زنجیر توڑ دی!
وہ مجتبیٰ ؑ وہ عالمِ لوحِ فلک مقام!معراجِ فکر، سدرہ نظر، عرش احتشام
ایسا سخی، ملک بھی کریں جس کا احترامدشمن سے بھی لیا نہ کبھی جس نے انتقام
جس نے دعائے غیر کو تاثیر بخش دی
اپنے عدو کو اپنی ہی جاگیر بخش دی
اللہ رے آب و تابِ رُخِ ابنِ بوتراب ؑاب تک خراج دے کے گزرتا ہے آفتاب
لوحِ جبیںِ وہ علمِ امامت کا ایک بابرفتار میں وہ عدل کہ محشر بھی دے حساب
بازو ہیں اس طرح سے عطا پر تلے ہوئے
جیسے فلک پہ صلح کے پرچم کھلے ہوئے
کاکل کی تیرگی سے مکمل ہر ایک راتچہرے کی چاندنی سے درخشاں ہے کائنات
دیتے ہیں جان، جنبشِ ابرو پہ معجزاتاَفشا ہے "رازِ کن" کہ کشادہ حسن ؑ کا ہات
ہیں شاخِ گل میں اوس کی بوندیں اڑی ہوئی
یا زلفِ مجتبیٰ ؑ میں ہیں گرہیں پڑی ہوئی
آنکھیں ہیں یا چراغ اَبد کی فصیل کےپلکیں ہیں یا حروف لبِ جبرئیل کے
عارض ہیں یاکنول مہ و انجم کی جھیل کےاعضا ہیں یا نقوش خیالِ جمیل کے
چہرہ حسن ؑ کا ہے کہ شبیہِ رسولؐ ہے
عالم تمام نقشِ کفِ پا کی دُھول ہے
یہ پھول پھول رنگ، طبیعت یہ باغ باغکونین پر محیط مزاجِ دل و دماغ
جس کی مئے اَنا سے پگھلنے لگے ایاغمہتاب حسنِ بندِ قبا سے ہے داغ داغ
جس کی مدد سے حق کی سدا برتری ہوئی
جس کی قبا کو دیکھ کے دُنیا ہری ہوئی
جو دلنشیں گریز کرے نام و ننگ سےانساں کو تولتا نہ ہو تیر وتفنگ سے
جو آئینہ تراش لے وجدانِ سنگ سےوہ اَمن آشنا، جسے نفرت ہو جنگ سے
صحرا، چمن کرے جو حدودِ چمن کے بعد
ایسا کوئی بشر نہیں دیکھا، حسن ؑ کے بعد
جس کا سلوک، خلقِ نبیؐ کا سلام لےحق دے کے جو عدو سے حقیقی مقام لے
دستِ اجل سے ہنس کے جو رختِ دوام لےاِک جنبشِ قلم سے جو پرچم کا کام لے
سلطانئ بہشت جسے کردگار دے
وہ کیوں نہ تاج و تخت کو ٹھوکر پہ مار دے
ٹکرائے گا حسن ؑ سے کہاں کوئی بے نسبیہ وجہِ ذوالجلال ، وہ اِبلیس کا غضب
حیدر ؑ کہاں، کہاں کوئی فرزندِ بنتِ شبزہرا ؑ سے کیا ملے کوئی حَمّالۃَ الحَطب
بیعت کی بحث ہی سرِ محفل فضول ہے
وہ پیکرِ خطا تو یہ ابنِ رسول ؐ ہے
گردِ خزف کجا، رُخِ دُرِّ نجف کجاقطرہ کجا، یہ قلزمِ کوثر بکف کجا
دَریوزہ گر کجا، شہِ عالی شرف کجاکنکر کجا، یہ جوہرِ حُسنِ صدف کجا
"تحت الثریٰ" کو ہمسرِ عرشِ عُلیٰ کہوں؟
دنیا، تِرے ضمیر کی پستی کو کیا کہوں؟
اے شہسوارِ دوشِ پیمبر مِرے اماماے والئ بہشتِ بریں، رحمتِ تمام
تُونے پیا ہے زہر سے لبریز غم کا جامتجھ کو غرورِ عظمتِ سقراط کا سلام
انساں کو آشتی کا قرینہ سکھا دیا
تُو نے دلوں کو چین سے جینا سکھا دیا
عالم میں ہے نجاتِ بشر کی نوید تُومحشر میں بابِ خلدِ بریں کی کلید تُو
دو بار راہِ حق میں ہوا ہے شہید تُوجنت تو کیا ہے، عرشِ معلّیٰ خرید تُو
کیا زہر کم تھا، تلخ کلامی کے واسطے؟
اَب تیر آرہے ہیں سلامی کے واسطے
کیوں بجھ گیا چراغ نبیؐ کے مزار کا؟کیوں رنگ اُڑ گیا ہے غمِ روزگار کا؟
بڑھتا ہے اضطراب دلِ سوگوار کاپردے میں شور کیوں ہے کسی پردہ دار کا؟
پھر زخم ہو گیا کوئی تازہ، الٰہی خیر!
پھر گھر کو آرہا ہے جنازہ، الٰہی خیر!!
زہرا ؑ کے لال ، تیرے چمن کو مِرا سلامتیری ہر اِک اُداس بہن کو مِرا سلام
عباسؑ کی جبیں کی شکن کو مِرا سلامچھلنی بدن کو، سرخ کفن کو مِرا سلام
صدمہ تِرا بہت ہے شہِ مشرقین ؑ کو
پُرسہ میں دے رہا ہوں امامِ حسین ؑ کو[1]

حوالہ جات

  1. محسن نقوی، فرات فکر: ص102

مآخذ

  • محسن نقوی، میراثِ محسن، لاهور، ماورا پبلشرز، ۲۰۰۷م.