"یاد زینب کو جو عباس کے بازو آئے" کے نسخوں کے درمیان فرق

شیعہ اشعار سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{جعبه اطلاعات شعر
| عنوان =
| تصویر =
| توضیح تصویر =
| شاعر کا نام = محسن نقوی
| قالب = سلام
| وزن = فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
| موضوع = یادِ شہدائے کربلا
| مناسبت =
| زبان = اردو
| تعداد بند = 9 بند
| منبع = 
}}
'''یاد زینب کو جو عباس کے بازو آئے''' حماد اہل بیت ؑ سید [[محسن نقوی]] کا معروف سلام ہے۔
'''یاد زینب کو جو عباس کے بازو آئے''' حماد اہل بیت ؑ سید [[محسن نقوی]] کا معروف سلام ہے۔
==تعارف==
==تعارف==
یہ سلام "فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن" کے وزن پر ہے جس کا آغاز جناب عباس علمدار ؑ کے بازؤں کی یاد کے ساتھ ثانی زہرا ؑ کے اشکوں سے کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قبر اصغر ؑ پر جگنوؤں کی روشنی سے چراغاں ہونا، طفلان مسلم کی چاند سے تشبیہ اور چاند کا لبِ دریا اترنا اور خونِ شبیر کی خوشبو سے معطر خاک کو کفن میں رکھنا بڑی خوبصورت تعبیریں ہیں۔  
اس سلام کا آغاز جناب عباس علمدار ؑ کے بازؤں کی یاد کے ساتھ ثانی زہرا ؑ کے اشکوں سے کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قبر اصغر ؑ پر جگنوؤں کی روشنی سے چراغاں ہونا، طفلان مسلم کی چاند سے تشبیہ اور چاند کا لبِ دریا اترنا اور خونِ شبیر کی خوشبو سے معطر خاک کو کفن میں رکھنا بڑی خوبصورت تعبیریں ہیں۔  
==مکمل کلام==
==مکمل کلام==
{{شعر}}
{{شعر}}

نسخہ بمطابق 15:13، 28 اکتوبر 2023ء

یاد زینب کو جو عباس کے بازو آئے
معلومات
شاعر کا ناممحسن نقوی
قالبسلام
وزنفاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
موضوعیادِ شہدائے کربلا
زباناردو
تعداد بند9 بند


یاد زینب کو جو عباس کے بازو آئے حماد اہل بیت ؑ سید محسن نقوی کا معروف سلام ہے۔

تعارف

اس سلام کا آغاز جناب عباس علمدار ؑ کے بازؤں کی یاد کے ساتھ ثانی زہرا ؑ کے اشکوں سے کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قبر اصغر ؑ پر جگنوؤں کی روشنی سے چراغاں ہونا، طفلان مسلم کی چاند سے تشبیہ اور چاند کا لبِ دریا اترنا اور خونِ شبیر کی خوشبو سے معطر خاک کو کفن میں رکھنا بڑی خوبصورت تعبیریں ہیں۔

مکمل کلام

یاد زینب کو جو عباس کے بازو آئےدیر تک آنکھ میں بے ساختہ آنسو آئے
قبر اصغر ؑ پہ گھڑی بھر کو چراغاں تو ہواکربلا میں جو بھٹکتے ہوئے جگنو آئے
مٹ گئی یاد سے تقدیر کے ماتھے کی شِکنذہن میں جب علی اکبر ؑ تِرے گیسو آئے
بڑھ کے لہروں نے قدم چوم لیے بچوں کےچاند مسلم ؑ کے جو کوفے میں لبِ جو آئے
کیوں نہ چومیں انہیں جنت کی ہوائیں مولاہونٹ میرے تِری دہلیز کو جب چھو آئے
ہم چھپا کر اُسے رکھتے ہیں کفن میں محسنخونِ شبیر ؑ کی جس خاک سے خوشبو آئے[1]

حوالہ جات

  1. محسن نقوی، فراتِ فکر: ص142

مآخذ

  • محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، ۲۰۰۷م.