"آج شبیر پہ کیا عالم تنہائی ہے" کے نسخوں کے درمیان فرق

شیعہ اشعار سے
(«'''آج شبیر پہ کیا عالم تنہائی ہے''' میر انیس کا مقبول عام مرثیہ جو "انیس کے مرثیے، جلد دوم" کا 17 واں مرثیہ ہے۔ ==تعارف== اس مسدس کے کل اشعار کی تعداد 55 ہے جو 330 مصرعے بنتے ہیں۔ اس مرثیے میں حضرت امام حسین ؑ کی تنہائی، زخمی حالت، شدتِ پیاس، وقت آخر با...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(ایک ہی صارف کا 4 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1: سطر 1:
{{جعبه اطلاعات شعر
| عنوان =
| تصویر =
| توضیح تصویر =
| شاعر کا نام = میر انیس
| قالب = مسدس
| وزن = فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
| موضوع = حضرت امام حسین ؑ کی تنہائی
| مناسبت = عاشورا
| زبان = اردو
| تعداد بند = 55 
| منبع = 
}}
'''آج شبیر پہ کیا عالم تنہائی ہے''' [[میر انیس]] کا مقبول عام مرثیہ جو "انیس کے مرثیے، جلد دوم" کا 17 واں مرثیہ ہے۔
'''آج شبیر پہ کیا عالم تنہائی ہے''' [[میر انیس]] کا مقبول عام مرثیہ جو "انیس کے مرثیے، جلد دوم" کا 17 واں مرثیہ ہے۔


==تعارف==
==تعارف==
اس مسدس کے کل اشعار کی تعداد 55 ہے جو 330 مصرعے بنتے ہیں۔ اس مرثیے میں حضرت امام حسین ؑ کی تنہائی، زخمی حالت، شدتِ پیاس، وقت آخر بارگاہ احدیت میں آپ ؑ کی مناجات اور بہن کے سامنے بھائی کے سر کو تن سے جدا کرنے کے واقعات کی منظر کشی کی گئی ہے۔ اسی طرح حضرت زینب کبریٰ ؑ اور سکینہ ؑ بنت الحسین ؑ کی مقتل میں آمد کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔
اس مرثیے میں حضرت امام حسین ؑ کی تنہائی، زخمی حالت، شدتِ پیاس، وقت آخر بارگاہ احدیت میں آپ ؑ کی مناجات اور بہن کے سامنے بھائی کے سر کو تن سے جدا کرنے کے واقعات کی منظر کشی کی گئی ہے۔ اسی طرح حضرت زینب کبریٰ ؑ اور سکینہ ؑ بنت الحسین ؑ کی مقتل میں آمد کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔


==مکمل کلام==
==مکمل کلام==
سطر 286: سطر 299:
== مآخذ==
== مآخذ==
* صالحہ عابد حسین، انیس کے مرثیے، نئی دہلی، ترقی اردو بیورو، طبع دوم، 1990ء.
* صالحہ عابد حسین، انیس کے مرثیے، نئی دہلی، ترقی اردو بیورو، طبع دوم، 1990ء.
[[زمرہ: انیس کے دیگر کلام]]

حالیہ نسخہ بمطابق 22:08، 18 نومبر 2023ء

آج شبیر پہ کیا عالم تنہائی ہے
معلومات
شاعر کا ناممیر انیس
قالبمسدس
وزنفاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
موضوعحضرت امام حسین ؑ کی تنہائی
مناسبتعاشورا
زباناردو
تعداد بند55


آج شبیر پہ کیا عالم تنہائی ہے میر انیس کا مقبول عام مرثیہ جو "انیس کے مرثیے، جلد دوم" کا 17 واں مرثیہ ہے۔

تعارف

اس مرثیے میں حضرت امام حسین ؑ کی تنہائی، زخمی حالت، شدتِ پیاس، وقت آخر بارگاہ احدیت میں آپ ؑ کی مناجات اور بہن کے سامنے بھائی کے سر کو تن سے جدا کرنے کے واقعات کی منظر کشی کی گئی ہے۔ اسی طرح حضرت زینب کبریٰ ؑ اور سکینہ ؑ بنت الحسین ؑ کی مقتل میں آمد کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔

مکمل کلام

آج شبیرؔ پہ کیا عالمِ تنہائی ہےظلم کی چاند پہ زہرا کی گھٹا چھائی ہے
اس طرف لشکرِ اعدا میں صف آرائی ہےیاں نہ بیٹا، نہ بھتیجا، نہ کوئی بھائی ہے
برچھیاں کھاتے چلے جاتے ہیں تلواروں میں
مار لو پیاسے کو ہے شور ستمگاروں میں
زخمی بازو ہیں کمر خم ہے بدن میں نہیں تابڈگمگاتے ہیں نکل جاتی ہے قدموں سے رکاب
پیاس کا غلبہ ہے، لب خشک ہیں، آنکھیں ہیں پر آبتیغ سے دیتے ہیں ہر وار کا اعدا کو جواب
شدتِ ضعف میں جس جا پہ ٹھہر جاتے ہیں
سیکڑوں تیر ستم تن سے گزر جاتے ہیں
گیسو آلودۂ خوں لپٹے ہیں رخساروں سےشانے کٹ کٹ کے لٹک آئے ہیں تلواروں سے
تیر پیوست ہیں خوں بہتا ہے سوفاروں سےلاکھ آفت میں ہے اک جان دل آزاروں سے
فکر ہے سجدۂ معبود ہیں سر دینے کی
وار سے تیغوں کے فرصت نہیں، دم لینے کی
خون سے تر پیچ عمامے کے ہیں سر زخمی ہےہے جبیں چاند سی پر نور مگر زخمی ہے
سینہ سب برچھیوں سے تا بہ کمر زخمی ہےتیرِ بیداد سے دل زخمی، جگر زخمی ہے
ضربِ شمشیر سے بیکار ہیں بازو دونوں
ظلم کے تیروں سے مجروح ہیں پہلو دونوں
برچھی آ کر کوئی پہلو میں لگا جاتا ہےمارتا ہے کوئی نیزہ تو غش آجاتا ہے
بڑھتے ہیں زخمِ بدن، زور گھٹا جاتا ہےبند آنکھیں ہیں، سرِ پاک جھکا جاتا ہے
گردِ زہراؔ و علیؔ گریہ کناں پھرتے ہیں
غل ہے گھوڑے سے امام دو جہاں گرتے ہیں
گرتے ہیں قطرۂ خوں زخمِ جبیں سے پیہمدستِ مجروح سے کھنچ سکتے نہیں تیرِ ستم
فکر ہے بخششِ امت کی کچھ اپنا نہیں غمکرتے ہیں شکرِ خدا خشک زباں سے ہر دم
ہے عبا تیروں سے غرباں قبا گلگوں ہے
ہونٹ یا وقت سے زخمی ہیں دہن پر خوں ہے
زیں سے ہوتا ہے جدا دوشِ محمد کا مکیںچمنِ فاطمہ کا سرو ہے مائل بہ زمیں
برچھیاں گرد ہیں اور بیچ میں ہیں سرورِ دیںہے یہ نزدیک گرے مہرِ نبوت کا نگیں
پاؤں ہر بار رکابوں سے نکل جاتے ہیں
یا علیؔ کہتی ہے زینبؔ تو سنبھل جاتے ہیں
لاکھ تلواریں ہیں اورایک تنِ اطہر ہےایک مظلوم ہے اور ظالموں کا لشکر ہے
سیکڑوں خنجرِ فولاد ہیں اور اک سر ہےنہ کوئی یار، نہ ہمدم، نہ کوئی یاور ہے
باگ گھوڑے کی لٹکتی ہے، اٹھا سکتے نہیں
سامنے اہلِ حرم روتے ہیں، جا سکتے ہیں
کوئی سید کا نہیں آہ، بچانے والاحربے لاکھوں ہیں، اور اک زخم اٹھانے والا
پیاس میں کوئی نہیں، پانی پلانے والاسنبھلے کس طرح بھلا، برچھیاں کھانے والا
چرخ سے آگ برستی ہے زمیں جلتی ہے
مارے گرمی کے زباں خشک ہے، لُو چلتی ہے
کہیں دم لینے کو سایہ نہیں، ہے وقت زوالاینٹھی جاتی ہے زباں پیاس کی شدت ہے کمال
کبھی زینبؔ کا ہے غم گاہ سکینہؔ کا خیالدن جو ڈھلتا ہے تو حضرت ہوئے جاتے ہیں نڈھال
مثلِ خورشید، بدن ضعف سے تھراتا ہے
نیر برجِ امامت پہ زوال آتا ہے
کہتے ہیں ظالموں سے، خشک زباں دکھلا کربہرِ حق، پانی کا اک جام پلادو لا کر
اہلِ کیں کہتے ہیں یہ تیغِ ستم چمکا کرآبِ شمشیر پیو برچھیوں کے پھل کھا کر
یہ سخن سن کے بھی غصہ نہیں فرماتے ہیں
یاس سے سوئے فلک دیکھ کے رہ جاتے ہیں
عرض کرتے ہیں یہ خالق سے کہ اے لبِ غفور!تو ہے عالم کہ نہیں کچھ ترے بندے کا قصور
کرتے ہیں یہ مجھے بے جرم و خطا تیغوں سے چورہاتھ امت پہ اٹھانا نہیں مجھ کو منظور
جانتے ہیں کہ محمدؔ کا نواسا ہوں میں
پانی دیتے نہیں دو روز کا پیاسا ہوں میں
تو نے بچپن سے مرے ناز اٹھائے یاربوہ عنایت کیا جو تجھ سے کیا میں نے طلب
تیرا محبوب بنا عید کو میرا مرکبروزہ رکھا تو چھپا مہر نمایاں ہوئی شب
بھوک میں خلد کا کھانا مجھے امداد کیا
بھیج کر ہرنی کا بچہ مرا دل شاد کیا
اب اگر ہے یہ تری مصلحت اے ربِّ قدیرہو رواں حلق پہ اس پیاسے کے آبِ شمشیر
میرے مولا بہ سر و چشم ہے حاضر شبیرحکمِ حاکم میں یہ طاقت ہے کروں میں تاخیر
جلد گردن پہ رواں، خنجرِ برّآں ہووے
اے خوشا وہ، جو تری راہ میں قرباں ہووے
غم نہیں کچھ مجھے گو بیکس و بے یار ہوں میںزیرِ شمشیر گلا رکھنے کو تیار ہوں میں
تو مددگار ہے، مختار ہے لاچار ہوں میںوقتِ مشکل ہے، عنایت کا طلبگار ہوں میں
تیرے سجدے میں یہ سر تن سے جدا ہو جاوے
عہدِ طفلی کا جو وعدہ ہے، وفا ہو جاوے
سختیاں مرگ کی کر اپنے کرم سے آساںلب پہ تکبیر ہو، جب خلق پہ خنجر ہو رواں
دل میں ہو یاد تری، بند ہو جس وقت زباںدم بھروں تیرا ہی تن سے جو نکلنے لگے جاں
بعدِ چہلم جو مجھے قبر میسر ہووے
زخمی تن پر نہ فشار اے مرے داور ہووے
رحم کر رحم کر شرمندہ ہوں اے یارِ خدابندگی کا ترے جو حق تھا ادا ہو نہ سکا
خوفِ محشر سے، بدن کانپتا ہے، سرتاپاہوگی اعمال کی پرسش تو، کہوں گا میں کیا؟
کوئی تحفہ ترے لائق نہیں پاتا ہے حسینؔ
ہاتھ خالی ترے دربار میں آتا ہے حسینؔ
تقویت دل کو کرم سے ہے ترے یا رحماںنہیں مایوس کہ رحمت ہے تری بے پایاں
مشکلیں بندوں کی کر دیتا ہے دم میں آساںشکر الطاف و عنایات میں قاصر ہے زباں
عاصیوں سے بھی محبت نہیں کم کرتا ہے
جرم وہ کرتے ہیں تو لطف و کرم کرتا ہے
میں تری راہ میں مظلومی سے ہوتا ہوں فداتو ہے آگاہ کہ دو دن کا ہوں بھوکا پیاسا
چاہتا ہوں میں یہی، اپنی شہادت کا صلامغفرت امتِ عاصی کی ہو اے بارِ خدا
ہے گوارا مجھے جو کچھ کہ اذیت ہووے
ان کو دنیا میں بھی عقبیٰ میں بھی راحت ہووے
عرض کرتے تھے یہ خالق سے شۂ بندہ نوازیک بیک عالمِ بالا سے یہ آئی آواز
اے مرے شیر کے فرزند، نبی کے دمسازتجھ سے ہم خوش ہیں پذیرا ہے ترا عجر و نیاز
مرد ہے عاشقِ کامل ہے، وفادار ہے تو
جو کہا وہ ہی کیا صادق الاقرار ہے تو
تو بھی مقبول ہے اور تیری عبادت بھی قبولیہ اطاعت بھی ہے مقبول، یہ طاعت بھی قبول
عاجزی بھی تری مقبول، شہادت بھی قبولتیری خاطر سے ہمیں بخششِ امت بھی قبول
ہم نے خیل شہدا کا تجھے سردار کیا
امتِ احمد مختار کا مختار کیا
دوست داروں کا ترے گلشنِ جنت ہے مقامتاابد سایۂ طوبیٰ میں کریں گے آرام
ہوں گے محشور ترے ساتھ عزادار تمامتجھ کو جو روئیں گے آنچ ان پہ ہے دوزخ کی حرام
غم نہ کھا! اہلِ جہاں تیرے محب سارے ہیں
تو ہے پیارا، ترے پیارے میں بھی ہمیں پیارے ہیں
ہوں گے ہر رنج سے، محفوظ ترے تعزیہ دارسختیِٔ مرگ نہ ان کو ہے، نہ ایذائے فشار
دمِ مردن نظر آوے گا علیؔ کا دیدارقبر سے گلشنِ فردوس کی دیکھیں گے بہار
دار دنیا ہی میں ہیں جو سو انہیں ایذا ہے
آنکھیں جب بند ہوئیں پھر، درِ جنت وا ہے
تجھ سا عابد نہ ہوا ہے، نہ کوئی ہووے گاتیر کھا کھا کے کسی نے بھی ہے یوں شکر کیا
طاعتِ خلق سے اک سجدہ ہے افضل تیراعرشِ اعظم پہ، ملائک تری کرتے ہیں ثنا
سارا گھر میری محبت میں، فنا تو نے کیا
بندگی کا تھا جو کچھ حق وہ ادا تو نے کیا
حشر تک روئے گا مظلومی پہ تیری عالمتیرا ماتم نہیں ہووے گا جہاں میں کبھی کم
روضۂ پاک کو تیرے یہ شرف بخشیں گے ہمآئیں گے جس کی زیارت کو ملک ہو کے بہم
یہ زمیں عرش سے رتبے میں سوا ہووے گی
خاک تربت کی تری خاکِ شفا ہووے گی
یہ صدا سن کے ہوئے شاد شۂ ہر دوسراآ گئی از سرِ نو جسم میں طاقت گویا
جھک کے سجدے کی طرف عجز سے رو کر یہ کہامیرے مولا میں تری بندہ نوازی کے فدا
کیوں نہ ممتاز ہو وہ تو جسے رتبہ بخشے
اس کفِ خاک کو کیا رتبۂ اعلیٰ بخشے
ابھی مولا نے سرِ عجز اٹھایا نہ تھا آہنیزہ اک چھاتی پہ مارا جو کسی نے ناگاہ
غش میں گرنے لگے گھوڑے سے امامِ ذی جاہآئی خاتونِ قیامت کی صدا بسم اللہ
تھامنے آئے علیؔ خلد سے گھبرائے ہوئے
دوڑے محبوبِ خدا ہاتھوں کو پھیلائے ہوئے
اک جفا کیش نے پھر پہلو پہ نیزہ ماراچھد گیا توڑ کے چھاتی کو کلیجہ سارا
پشتِ تازی پہ، سنبھلنے کا نہ پایا یاراگر پڑا خاک پہ، وہ عرشِ خدا کا تارا
گرد آلود قبائے شہِ پرنور ہوئی
ریت زخموں کے لیے مرہم کافور ہوئی
خاک و خوں میں جو تڑپتے تھے ، شہنشاہِ زمنگل کے مانند کھلے جاتے تھے سب زخمِ بدن
طلبِ آب میں کھولے ہوئے تھے خشک دہنگرد کھینچے ہوئے تلواریں کھڑے تھے دشمن
غمِ ناموس بھی تھا، پیاس کی بھی شدت تھی
پھر سکینہؔ کو نہ دیکھ آئے یہی حسرت تھی
کان میں آتی تھی زینبؔ کے صدائے جانکاہدل تڑپ جاتا تھا کرتے تھے عجب درد سے آہ
راہ روکے ہوئے خیمے کی، کھڑے تھے گمراہنیم وا چشم سے کرتے تھے سوئے خیمہ نگاہ
تنِ زخمی پہ جو پیکانِ ستم گڑتے تھے
خاک سے اٹھتے تھے اور کانپ کے گر پڑتے تھے
کہتا تھا فوج میں سب سے عمرِ بد اخترکھنچے کیوں تیغوں کو ہاتھوں میں کھڑے ہو ششدر
ریگِ تفتیدہ پہ ہے غش میں، علیؔ کا دلبرجاؤ کیا دیر ہے ، کاٹو شۂ مظلوم کا سر
تیغ سے فاطمہؔ زہرا کا گلا چاک کرو
جلد ہاں خاتمۂ پنجتن پاک کرو
ایسے مظلوم کا، سر کاٹنا کیا ہے دشوارجس کا کوئی بھی مددگار، نہ ہمدرد، نہ یار
عورتیں ہیں کئی خیمے میں غریب و ناچارمر چکے پہلے ہی جو خون کے تھے دعویدار
خوں بہا بھی نہ کوئی مانگنے کو آوے گا
اک پسر ہے سو وہ بیمار ہے مرجاوے گا
کانپ کر کہتے تھے سب ہم سے نہ ہوگا یہ ستمذبح فرزندِ محمدؔ کو نہیں کرنے کے ہم
ایسے مظلوم کی چھاتی پہ جو رکھے گا قدمپاؤں جل جائے گا تھرائے گا عرشِ اعظم
پیٹتے قبر سے محبوب خدا آویں گے
بخدا فاطمہ کی آہ سے جل جاویں گے
کون بے کس کو بھلا ذبح کرے بے تقصیرپھرتا ہے کوئی پیاسے کے گلے پر شمشیر؟
گو کہ بے کس ہے پہ آساں نہیں، قتلِ شبیرؔحشر میں ہوئیں گے محبوبِ خدا دامن گیر
تو سمجھتا ہے کہ اس کا کوئی خوں خواہ نہیں
بنتِ احمدؔ نہیں، حیدر نہیں، اللہ نہیں
تھا جو دمساز عمر ابن نمیرِ اَظلمبڑھ کے تیغ اس نے سرِ شاہ پہ ماری اس دم
تا جبیں ہو گیا مجروح سرِ شاہِ اممتھام کر سر کو پکارے یہ امامِ عالم
نہ میسر تجھے اس ہاتھ سے کھانا ہووے
تو تہی دست جہنم کو روانہ ہووے
چاہا ظالم نے کہ پھر شۂ پہ کرے تیغ کا واردیکھا انگشت بدنداں ہیں رسولؐ مختار
خشک اس وقت ہوئے دستِ ستمگر اک بارہاتھ سے تیغ گری خوف سے بھاگا، خوں خوار
یاں سرِ پاک سے حضرت کے لہو جاری تھا
خم سوئے قبلہ تھے، بند آنکھیں تھیں غش طاری تھا
جب تڑپنے کی بھی طاقت نہ رہی سرور کوغل ہوا یہ کہ غش آیا، خلفِ حیدر کو
فوج سے شمر بڑھا کھینچے ہوئے خنجر کوسب سے کہتا تھا کہ اب کاٹو سرِ سرور کو
خلفِ احمدِ مختار کا قاتل ہوں میں
کام میرا ہے، اسی کام کے قابل ہوں میں
مجھ کو حیدرؔ سے غرض ہے نہ محمدؔ سے ہے کامرو دیں محبوبِ خدا ہووے خوشی حاکمِ شام
دولتِ فاطمہؔ لے جاؤں میں پاؤں انعامروح حیدرؔ کی ہو بے چین، مجھے ہو آرام
منہ نہ میں دولتِ دنیا سے کبھی پھیروں گا
آج زہراؔ کے کلیجے پہ چھری پھیروں گا
تیز کرتا ہوا خنجر کو گیا شہ کے قریںآسماں ہل گیا تھرا گئی مقتل کی زمیں
رو رو چلانے لگی زینبِؔ ناشادِ حزیںغش میں بھی گھیرے ہیں، ہے ہے مرے بھائی کو لعیں
رحم زہراؔ کے پسر پر نہیں کھاتا کوئی
خاک سے بھی نہیں زخمی کو اٹھاتا کوئی
کس سے فریاد کروں، جا کے میں دکھیا ہے ہےنہ محمدؔ ہیں نہ حیدرؔ ہیں نہ زہرا ہے ہے
لاکھ دشمن ہیں مرا بھائی ہے تنہا ہے ہےتیغوں سے کٹتا ہے، زہراؔ کا کلیجا ہے ہے
سروِ گلزارِ رسالت کو قلم کرتے ہیں
ہائے سید پہ، مسافر پہ ستم کرتے ہیں
گرد زینب کے تھا ناموس پیمبر کا ہجومبانو روتی تھی، کھڑی پیٹتی تھی سر، کلثوم
کہتی تھی دیکھ کے میداں کو سکینہ معصوماے پھوپھی! نرغۂ اعدا میں ہیں شاہِ مظلوم
جاؤں گی اب میں ٹھہرنے کی نہیں آپ کے پاس
شمرؔ خنجر لیے جاتا ہے ، مرے باپ کے پاس
باپ کے پاس سے ، جا کر اسے سرکاؤں گیجوڑ کر ہاتھوں کو منت سے میں سمجھاؤں گی
اپنے بابا کی میں چھاتی سے لپٹ جاؤں گیخیمے تک ان کو سنبھالے ہوئے لے آؤں گی
بھوکے پیاسے، مرے بابا کو نہ مارے کوئی
ان کے بدلے، مرا سر تن سے اتارے کوئی
کتنا روکا اسے بانو نے پہ ہرگز نہ رکیچھوٹے سے ہاتھون سے سر پیٹتی میداں کو چلی
پیچھے سر کھولے ہوئے خیمے سے زینبؔ نکلیپہنچی رن میں تو سکینہؔ یہ عمر سے بولی
او لعیں حیدرِؔ کرار کی پوتی ہوں میں
رحم کر! مجھ پہ کہ بِن باپ کی ہوتی ہوں میں
دیکھ غربت کو مری کر مرے بچپن پہ نظرباپ مارا گیا میرا تو جیوں گی کیوں کر؟
سر پہ آوے گی یتیمی تو میں جاؤں گی کدھر؟میں تو ہوں باپ کی شیدا مرا عاشق ہے پدر
باپ بن ایک دم آرام نہ آوے گا مجھے
کون پھر رات کو چھاتی پہ سلاوے گا مجھے
ہنسلیاں اپنی گلے سے تجھے دیتی ہوں اتارلے مرے کان کا دُر، پرمرے بابا کو نہ مار
ہاتھوں کو جوڑتی ہوں میں ترے آگے ناچارمنع کردے کوئی بیکس کو نہ مارے تلوار
گھر میں جو کچھ زر و زیور ہے، وہ لادوں گی میں
جان بابا کی بچے گی تو دعا دوں گی میں
بھیڑ میں مجھ کو نظر آتے نہیں بابا جاںاتنا کہہ دے کہ سرک جائیں یہ سب بے ایماں
گرد پھر پھر کے، میں ہوں اپنے پدر کے قرباںجا کے دیکھوں گی، بدن پر ہیں لگے زخم کہاں
دمِ آخر تو بھلا کام میں آؤں ان کے
اپنے کرتے سے لہو منہ کا چھڑاؤں ان کے
کتنا کہتی رہی وہ بنتِ شۂ عرشِ جناباس ستمگر نے دیا کچھ نہ سکینہؔ کو جواب
پیٹ کر سر کہا زینبؔ نے کہ او خانہ خرابتجھ کو آتا نہیں کچھ روحِ پیمبر سے حجاب
ظلم مت کر اسد اللہ کی جائی ہوں میں
ننگے سر پردے سے باہر نکل آئی ہوں میں
میری اماں کا ہے مشہور جہاں میں پردابعدِ رحلت بھی جنازہ نہ کسی نے دیکھا
اس کی بیٹی ہوں، ترے ظلم سے ، یہ وقت پڑاسر برہنہ ہوں، گریباں بھی ہے کرتے کا پھٹا
منہ کو اللہ و پیمبر سے چھپاتا ہے تو
میں تو فریادی ہوں، اور آنکھ چراتا ہے تو
مارا جاتا ہے ترے سامنے زہراؔ کا پسردیکھتا ہے تو یہ تلواریں ہیں پڑتی کس پر
تیر کس کو لگے غربال ہوا کس کا جگرذبحِ کرنے کو کسے کھینچے ہے ظالم خنجر
دلِ زہرا، جگر شیرِ خدا، کٹتا ہے
ظلم سے تیرے، محمدؔ کا گلا کٹتا ہے
قتل مظلوم کو کیوں کرتا ہے، بے جرم و گناہاب تلک میں نے بہت صبر کیا ہے واللہ
دل جلی ہوں میں ابھی سینے سے کھینچوں گر آہتوبھی جل جائے، تری فوج بھی ہو خاک سیاہ
بد دعا دوں میں تو نازل ابھی آفت ہووے
سر کے بالوں کو جو کھولوں تو قیامت ہووے
غش میں حضرت نے سنے جبکہ یہ زینبؔ کے سخنکھول کر دیدۂ پرخوں کو اٹھائی گردن
دیکھا سر ننگے کھڑی روتی ہیں مقتل میں بہنبنتِ زہراؔ کو پکارے یہ شہنشاہِ زمن
کیا کیا تم نے کہ پردے سے کھلے سر نکلیں
جیتے جی میرے سر پردے سے باہر نکلیں
کس کو سمجھاتی ہو، کوئی نہ سنے گا فریادباز آئے گا نہیں، قتل سے میرے جلاد
جتنا تم پیٹتی ہو، اور لعیں ہوتے ہیں شادحشر کے روز خدا دیوے گا اس خون کی داد
شوق مرنے کا ہے، سر تن سے جدا ہونے دو
جاؤ گھر میں، مجھے امت پہ فدا ہونے دو
گود میں میری سکینہؔ کو اٹھاؤ ہمشیرکوئی اصغر کی طرح مار نہ بیٹھے اسے تیر
پھر یہ بیٹی کو پکارے ترے صدقے شبیرؔتو بھی جا ساتھ پھوپھی جان کے اب اے دلگیر
وقتِ طاعت ہے ذرا یادِ خدا کر لیویں
ہم بھی اب آتے ہیں، سجدے کو ادا کر لیویں
کہہ کے یہ غش ہوئے پھر رن میں شہنشاہ اممشمرِ اظلم نے رکھا، سینۂ اقدس پہ قدم
جگرِ فاطمہؔ زہرا پہ چلی تیغِ دو دمآگے زینبؔ کے ہوئے ذبح حسینؔ آہ ستم
پیٹ کر بنت شہنشاہِ زمن رونے لگی
باپ کو بیٹی، برادر کو بہن رونے لگی
فتح کا فوج مخالف میں بجا نقاراغل ہوا قتل ہوا شیر خدا کا پیارا
بس انیسؔ اب نہیں گویائی کا مجھ کو یاراغم سے خوں ہو گیا سینہ میں کلیجا سارا
کس سے اس درد و مصیبت کا بیاں ہوتا ہے
آنکھیں روتی ہیں قلم روتا ہے دل روتا ہے[1]

حوالہ جات

  1. انیس کے مرثیے: ج2، ص342

مآخذ

  • صالحہ عابد حسین، انیس کے مرثیے، نئی دہلی، ترقی اردو بیورو، طبع دوم، 1990ء.