"گوہر کنج حرم" کے نسخوں کے درمیان فرق
Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←مآخذ) |
||
سطر 315: | سطر 315: | ||
{{پانویس}} | {{پانویس}} | ||
==مآخذ== | ==مآخذ== | ||
*محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، | * محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، 2007ء. | ||
[[زمرہ: محسن نقوی کے دیگر کلام]] | [[زمرہ: محسن نقوی کے دیگر کلام]] |
حالیہ نسخہ بمطابق 16:36، 11 دسمبر 2023ء
معلومات | |
---|---|
شاعر کا نام | محسن نقوی |
قالب | مسدس |
وزن | مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات |
موضوع | حضرت علی علیہ السلام |
مناسبت | 13 رجب |
زبان | اردو |
تعداد بند | 58 بند |
گوہرِ کنجِ حرم: حضرت علی ؑ کی شان میں حماد اہل بیت ؑ سید محسن نقوی کی لکھی ہوئی منقبت ہے۔
تعارف
اس مسدس میں حضرت امیر المؤمنین ؑ کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے بار بار ساقی سے جامِ ولا پلانے کی درخواست پائی جاتی ہے پھر شراب عشق علی ؑ کی تعریف و تمجید اور اس کے اثرات کو حسین پیرائے میں بیان کرتے ہوئے وقتِ ولادت مولائے کائنات ؑ کی منظر کشی کی گئی ہے اور آخری حصے میں جناب امیر ؑ کے فضائل بیان کرتے ہوئے التجائیہ انداز اپنایا گیا ہے۔
مکمل کلام
ہر سُو رواں ہوائے خمارِ طرب ہے آج | "بابِ قبول" وا ہے، مرادوں کی شب ہے آج | |
دل میں خوشی، سرور نظر میں عجب ہے آج | ساقی مجھے نہ چھیڑ کہ "تیرہ رجب" ہے آج | |
رخ سے نقاب اُٹھا کے نویدِ ظہور دے | ||
حاضر ہے دل کا جام، شرابِ طہور دے | ||
وہ مَے پلا کہ جس سے طبیعت ہری رہے | نَس نَس میں "اِنّما" کی صبوحی بھری رہے | |
قائم سدا جہاں میں تِری دلبری رہے | آنکھوں کے سامنے یہ صراحی دھری رہے | |
جو بادہ کش وِلا کا نشہ کل پہ ٹال دے | ||
للہ اپنی بزم سے اس کو نکال دے | ||
وہ مَے پلا کہ جس میں نبوت کی بُو ملے | جس کے نشے میں حُسنِ امامت کی خو ملے | |
"آدم" کو جس سے کھوئی ہوئی آبرو ملے | میں بھی پیوں تو مجھ کو خدا روبرو ملے | |
وہ مَے کہ جس میں صبحِ ازل کا سرور ہو | ||
وہ مَے کہ جس میں "آلِ محمدؐ" کا نور ہو | ||
وہ مَے جو مصطفےٰؐ نے "کسا" میں چھپا کے پی | اور فاطمہ ؑ نے اپنی حیا میں ملا کے پی | |
حسنین ؑ و مرتضیٰ ؑ نے جو محفل سجا کے پی | جبریلؑ نے فلک سے زمیں پہ جو آکے پی | |
جس کا نشہ نجات کا سامان ہو گیا | ||
سلمان پی کے فخر سلیمان ہوگیا | ||
عیسیٰ ؑ نے پی تو اس کو مسیحائی مل گئی | موسیٰ ؑ کو اپنے رب کی شناسائی مل گئی | |
داؤد ؑ کو بھی طاقتِ گویائی مل گئی | یعقوب ؑ نے جو پی تو اُسے بینائی مل گئی | |
وہ مَے کہ جس کا کیف دلوں میں اُتر گیا | ||
یوسف ؑ نے پی تو چاند سا مکھڑا نکھر گیا | ||
قیمت میں خلد سے بھی جو برتر ہے وہ شراب | جس کا نشہ نماز سے بہتر ہے وہ شراب | |
جو غازۂ خیالِ پیمبر ؐ ہے وہ شراب | جو مدعائے قنبر و بوذر ہے وہ شراب | |
جس کا سرور فکرِ بشر کا غرور ہے | ||
جس کے نشے کی موج سرِ کوہ طور ہے | ||
وہ مَے کہ جس سے دل کو شعورِ بشر ملے | جس کے بس ایک گھونٹ سے جنت میں گھر ملے | |
جس کے نشے میں شہرِ نبوت کا دَر ملے | جس کے سبب دلوں کی دعا کو اثر ملے | |
اِک رِند کائنات میں بے باک ہو گیا | ||
بہلول پی کے صاحبِ ادراک ہوگیا | ||
وہ مَے پلا کہ ٹوٹ کے جس پر ملک پڑیں | جس کے نشے کے رنگ اُڑیں، عرش تک پڑیں | |
رِندوں پہ اولیاء کے زمانے کو شک پڑیں | کم ظرف میکشوں کے بھی ساغر چھلک پڑیں | |
کنکر پہ جس کی چھینٹ بھی پڑ جائے "دُر" کرے | ||
وہ مَے جو عاصیوں کو بھی اِک پل میں "حُر" کرے | ||
جس کا سرور ضامنِ جنت ہے وہ شراب | جو واقفِ مزاجِ شریعت ہے وہ شراب | |
جو رمزِ "قُل کَفیٰ" کی حقیقت ہے وہ شراب | جس کا خمار ، اجرِ رسالت ہے وہ شراب | |
ایسی پلا کہ سارا جہاں ڈولنے لگے | ||
نوکِ سناں پہ جس کا نشہ بولنے لگے | ||
جس کی نظیر مل نہ سکے شش جہات میں | تیرے سوا کہیں نہ ملے کائنات میں | |
بھر دے اَبد کا رنگ بشر کی حیات میں | وہ مَے جو آفتاب اُگلتی ہے رات میں | |
وہ مَے جو ہے غلافِ حرم میں چھنی ہوئی | ||
جو عرش پر ہے دستِ خدا سے بنی ہوئی | ||
رندوں کو آج ضد ہے تِری دلبری کھلے | رازِ جنون و غایتِ شعلہ سری کھلے | |
یہ کیا کہ میکدے کا فسوں سرسری کھلے | اِک "در" نہ کھول، آج تو "بارہ دری" کھلے | |
تلچھٹ نہ دے کہ رِند یہ خلد و عدن کے ہیں | ||
اَدنیٰ سے ہیں غلام مگر پنجتن ؑ کے ہیں | ||
میں چاہتا ہوں آج نیا اہتمام ہو! | "یٰسین" کی شراب ہو ، "طٰہٰ" کا جام ہو | |
پھوٹے سحر دلوں میں تو آنکھوں میں شام ہو | ہر رِند کے لبوں پہ خدا کا کلام ہو | |
ہر دل سے آج بغض کا کانٹا نکال دے | ||
دنیا کی خواہشوں کو جہنم میں ڈال دے | ||
ساغر میں "ہَل اتیٰ" کی کرن گھول کر پلا | سر پہ لوائے حمدِ خدا کھول کر پلا | |
چپ چپ سا کیوں ہے آج تو ہنس بول کر پلا | رِندوں کا ظرف پوری طرح تول کر پلا | |
ساغر آج اِتنی مقدس شراب ہو | ||
پی لیں گناہ گار تو حج کا ثواب ہو | ||
ساغر اُٹھا کہ چھائی گھٹا جھوم جھوم کر | آئی ہوا نجف کے دریچوں کو چوم کر | |
ساقی! حریمِ دل میں منوّر نجوم کر | رِندوں کو واقفِ درِ بابِ علوم کر | |
ہم کو پلا وہی جو "وِلا" کی شراب ہو | ||
وہ مَے جو اولیاء کے لیے انتخاب ہو | ||
کھول ایسا میکدہ جو حرم سے بھی کم نہ ہو | جس کی حدوں پہ بندشِ لوح و قلم نہ ہو | |
جس کی فضا میں کوئی فسوں محترم نہ ہو | ساغر تُراب کا ہو، کوئی جامِ جم نہ ہو | |
ہمراہ تُو رہے تو کوئی رنج وغم نہیں | ||
ورنہ تِرے فقیر، سکندر سے کم نہیں | ||
ساقی تُو مل گیا تو غمِ جاں کی رُت ٹلی | غنچے نکھر گئے تو چٹکنے لگی کلی! | |
مہکی ہوئی ہے شہرِ تصور کی ہر گلی | وہ دیکھ! سج رہا ہے زچہ خانۂ علی ؑ | |
مشغولِ رقص و نغمہ بہ لب جبرئیلؔ ہیں | ||
مصروفِ اہتمام ذبیحؔ و خلیلؔ ہیں | ||
حوروں کے گیسوؤں سے مُصلّے بُنے ہوئے | پھر اُن پہ کہکشاں کے ستارے چنے ہوئے | |
موجِ درود میں وہ ملک سر دھنے ہوئے | پہلے نہیں یہ گیت کسی کے سنے ہوئے | |
رتبہ ملا وہ محفلِ سدرہ جبین کو | ||
جھک جھک کے آسمان نے دیکھا زمین کو | ||
آدم بچھا رہا ہے دُعاؤں کی چاندنی | ایوب ؑاپنے صبر سے کرتا ہے روشنی | |
ہے آبدار نوح ؑ سا انسان کا نجی | آیا ہے خضر ؑ ساتھ لیے خمسِ زندگی | |
یعقوب ؑ بھی ہے آنکھ کی مستی لیے ہوئے | ||
یوسف ؑ ہے ساتھ مشعل ہستی لیے ہوئے | ||
ہر سُو ردائے ابرِ کرم ہے تنی ہوئی | ذرّوں کی آفتاب فلک سے ٹھنی ہوئی | |
شبنم برس رہی ہے شفق میں چھنی ہوئی | مکہ کی سرزمیں ہے مُعلّیٰ بنی ہوئی | |
آئی ہے کون دیکھنے اس اہتمام کو | ||
جھکنے لگی ہیں مریم ؑ و حوا ؑ سلام کو | ||
آئے ہیں بہرِ دید خدائی کے انبیاء ؑ | اوّل ابو البشر ہیں تو آخر ہیں مصطفیٰ ؐ | |
اِس سمت انبیاء ؑ ہیں تو اُس سمت اولیاء ؑ | دونوں کے درمیان ہے عمراں ؑ کا قافلہ | |
بلقیسؔ ایک طرف ہو، سلیماں خیال کر | ||
"بنتِ اسد ؑ" چلی ہے ردا کو سنبھال کر | ||
وہ انبیاء ؑ کا قافلہ اِک دم ٹھہر گیا | ہر سُو ہے شورِ سلّمَہا ، وردِ مرحبا | |
سب سے الگ کھڑے ہیں وہ چپ چپ سے مصطفیٰ ؐ | "بنتِ اسدؑ" چلی ہے سوئے خانۂ خدا | |
ساعت یہی ہے شاہدِ حق کے شہود کی | ||
ذرّوں سے آ رہی ہیں صدائیں درود کی | ||
لیکن درِ حرم تو مقفّل ہے اس گھڑی | بنتِ اسدؔ یہ دیکھ کے واپس پلٹ پڑی | |
نازِل ہوئی فلک سے وہ الہام کی لڑی | آئی صدا "نہ جا گُلِ عصمت کی پنکھڑی" | |
دیوار "در" بنے کہ زمانے میں دُھوم ہو | ||
ظاہر کمالِ مادرِ بابِ علوم ہو | ||
ساقی نہ چھیڑ، ہے یہی آغازِ امتحاں | دھڑکن زمیں کی چپ ہے تو ساکت ہے آسماں | |
خاموش، اے قیامتِ ہنگامۂ جہاں! | کعبے میں جا رہی ہے وہ اِک بت شکن کی ماں | |
قرآنِ بندگی کی تلاوت کا وقت ہے | ||
جاگو طلوعِ شمسِ امامت کا وقت ہے | ||
جاگ اے ضمیرجاگ! کہ جاگے ہیں تیرے بھاگ | تارِ نفَس کو چھیڑ کے چھیڑا ہوا نے راگ | |
خوش ہوگئی زمیں کہ اُسے مل گیا سہاگ | ساقی ! شراب لا کہ بجھے تشنگی کی آگ | |
ظلماتِ دوجہاں کی رِدا چاک ہوگئی | ||
نازل ہوئے علی ؑ تو فضا پاک ہو گئی | ||
بنتِ اسدؔ کی گود سے اُبھرا اِک آفتاب | ہاں اے تُرابٗ تجھ کو مبارک ہو بُو تراب | |
کوثر! چھلک ذرا ، تِرا ساقی ہے لاجواب | بطحاؔ کی سرزمین! سلامت یہ انقلاب | |
عمران ؑ جھومتے ہیں کہ زہرہ جبیں تو ہے | ||
اب خوش ہیں مصطفیٰ ؐ کہ کوئی جانشیں تو ہے | ||
آدم ؑ ہے خوش کہ اُس کی دُعا کا اثر ملا | عیسیٰ ؑ ہے رقص میں کہ کوئی چارہ گر ملا | |
ایوب ؑ کو بھی صبر کا شیریں ثمر ملا | یوسف ؑ کو اپنے حُسن کا پیغام بر ملا | |
مسرور ہے فضا، کوئی محشر بپا نہ ہو! | ||
سہمے ہوئے بت کہ یہ بندہ خدا نہ ہو | ||
ترتیبِ خال و خد سے نمایاں ہے برتری | پیکر کے بانکپن پہ نچھاور دلاوری | |
چہرے پہ وہ سکون کہ نازاں پیمبری | آنکھوں میں وہ غرور کہ حیراں ہے داوری | |
چہرہ نکھر رہا ہے نبوت کے خواب کا | ||
بچپن پہ انحصار ہے حق کے شباب کا | ||
ابرو یہ قوس قوس ، یہ زلفیں شکن شکن | عارِض یہ رنگ رنگ ، یہ چہرہ چمن چمن | |
اعضاء شفق شفق ہیں یہ آنکھیں کرن کرن | پلکیں یہ حرف حرف ، یہ تیور سخن سخن | |
آئی ہے ایک بات ہی اب تک قیاس میں | ||
خوشبو ہے داوری کی بشر کے لباس میں | ||
آیا ہے ٹوٹ کر اسد اللہ ؑ پر شباب | صحرا کی موج موج سے اُبھرا اِک آفتاب | |
پیدا ہوا دلوں کی تہوں میں وہ اضطراب | بُوجہل و بُو لہب کا بھی زہرہ ہے آب آب | |
دیکھا وہ مرتضیٰ ؑ نے دلِ ماء و طین کو | ||
جبریل ؑ پَر بچھا کے بچا لے زمین کو! | ||
ساقی! شراب لا کہ طبیعت مچل گئی | لغزِش مِرے شعور کی مستی میں ڈھل گئی | |
نبضِ قلم بہکنے لگی تھی، سنبھل چلی | رنگینیوں کو دیکھ کے نیّت بدل گئی | |
آ! تجھ پہ رَمزِ رونقِ ہستی عیاں کروں | ||
کچھ پی کے مدحتِ شہِ دوراں بیاں کروں | ||
مولا علی ؑ، شعورِ بشر، فکرِ ارجمند | ڈالی ہے جس کی سوچ نے اَفلاک پر کمند | |
وہ جس کا مرتبہ بنی آدم میں ہے بلند | چھڑکا ہے جس نے موت کے چہرے پہ زہرخند | |
جو نقطۂ عروجِ فروع و اصول تھا | ||
بستر پہ سو گیا تو شبیہِ رسولؐ تھا | ||
کشور کشائے فکر ، شجاعت کا بانکپن | صابر، سخی، کریم، رضا جُو وہ بت شکن | |
نانِ جویں کا ناز، قناعت کی انجمن | دِل کا غرور، جرأت و احساس کی پھبن | |
جس کا وجود قدرتِ حق کی دلیل تھا | ||
جس کا شعور بوسہ گہِ جبرئیل تھا | ||
خیبر کشا ، یقین کا پیکر وہ بُوتراب ؑ | تاریخ کی جبیں پہ وہ فتحِ مبیں کا باب | |
سرچشمۂ نجاتِ بشر، روح ِ انقلاب | جس کے وجود سے ہے رُخِ دیں کی آب وتاب | |
جس کا کرم جہاں کے لیے عام ہوگیا | ||
خطروں کو اوڑھ کر جو سرِ شام سو گیا | ||
وہ جس کے فرقِ ناز پہ کج تھا شرف کا تاج | وہ بُوتراب، شمس و قمر سے جو لے خراج | |
وہ خُلق و اقتدار و سخاوت کا امتزاج | جس نے زمیں پہ رہ کے کیا آسماں پہ راج | |
سلطانئ بہشتِ بریں کی نوید لی!! | ||
اِک ضرب سے جہاں کی عبادت خرید لی! | ||
ایسا کریم، جس کے کرم کی نہ حد ملے | ایسا علیم، علم کو جس سے مدد ملے | |
ایسا سلیم، جس میں شعورِ صمد ملے | ایسا عظیم، جس کی ادا میں اَحد ملے | |
دنیا و دیں میں جس کو معلّیٰ نسب ملے | ||
خالق کی بارگاہ سے حیدر لقب ملے | ||
جس نے ہوا کی زد پہ منور کیے چراغ | جس سے مراجِ عزم رسالت تھا باغ باغ | |
جس کا وجود منزلِ کونین کا سراغ | جس کی عطا کا نام بہشتِ دل و دماغ | |
جس کے لہو سے چہرۂ عالم نکھر گیا | ||
جس کا ہر ایک نقش دلوں میں اُتر گیا | ||
وہ دیں کی سلطنت کا اولوالعزم تاجدار | وہ مظہرِ جلالِ خداوندِ روزگار! | |
وہ بوریا نشیں وہ شہِ کہکشاں سوار | وہ بندۂ خدا، وہ خدائی کا افتخار | |
جس کے قلم کی نوک بلاغت کی راہ تھی | ||
جس کے علَم کی چھاؤں رسالت پناہ تھی | ||
وہ مرتضیٰ ؑ وہ گوہرِ کُنج ِ حرم علی ؑ | صحرائے جاں پہ سایۂ ابرِ کرم علی ؑ | |
سرمایۂ حیات، اَنا کا بھرم علی ؑ | ٹھہرا نبی ؐ کے بعد سدا محترم علی ؑ | |
مشکل میں جو خرد کے لیے کارساز تھا | ||
جو "لیلۃ الہریر" میں وقفِ نماز تھا | ||
جو شہریارِ شہرِ امامت ہے وہ علی ؑ | جس کا ہر ایک نقش سلامت ہے وہ علی ؑ | |
جو صدقِ مصطفیٰ ؐ کی علامت ہے وہ علی ؑ | جس کے غضب کا نام قیامت ہے وہ علی ؑ | |
جس نے گداگروں کو تونگر بنا دیا | ||
بے زر کو چھو لیا تو ابوذر بنا دیا | ||
اقلیمِ حریت کا شہنشاہِ بے مثال | چہرے پہ عکسِ غازۂ رعنائیِ خیال | |
جس کے خرام ناز سے بھولیں غزال چال | آئے جلال میں تو لگے وجہِ ذوالجلال | |
جاگے تو یوں کہ تمغۂ عزمِ وحید لے | ||
سوئے تو کردگار کی مرضی خرید لے | ||
منبر پہ شمعِ اَمن تو جنگاہ میں جری | نازاں ہو جس کے فقر کی دولت پہ سروری | |
جس کی ہر اِک ادا میں ہو عکسِ پیمبری | دنیا میں بے عدیل ہو جس کی سخنوری | |
وہ مردِ حق جو فاتحِ بدر و حنین ہے | ||
ہاں وہ علی ؑ جو دیں کے لیے زیب و زَین ہے | ||
ہاں ہاں وہ مردِ حق، وہ پیمبر ؐ کا چارہ ساز | افشا تھا اُنگلیوں کی طرح جس پہ دل کا راز | |
تا حشر جس کی ضرب پہ سجدے کریں گے ناز | وہ جس کا نام لے کے ہوئی سرخرو نماز | |
جو دینِ کبریا کے کرم کا جہان ہے | ||
محرابِ معرفت میں سحر کی اذان ہے | ||
مشکل کشا، امیر، اَنا مست، بت شکن | جس سے فضائے دشتِ وفا ہے چمن چمن | |
سرمایۂ مزاجِ مناجاتِ پنجتن ؑ | خالق کا معجزہ وہ خدائی کا بانکپن | |
جس بندۂ خدا کو "نصیری" خدا کہیں | ||
اے عقل کچھ بتا اُسے ہم لوگ کیا کہیں؟ | ||
وہ جس کا عکس، غازۂ رخسارِ زندگی | جس کا عمل تھا نقطۂ معیارِ زندگی | |
جس کا خرام شعلۂ رفتارِ زندگی | جس کا وجود مخزنِ اسرارِ زندگی | |
وہ نازِ آسماں جو رسالت خمیر تھا | ||
جو محفلِ جہاں میں بشر کا ضمیر تھا | ||
یزداں کی چھوٹ جس کے حسیں خال و خد میں ہو | فتحِ مبیں کا راز بھی جس کی مدد میں ہو | |
جو آسرا حیات کا بدرو اُحد میں ہو | عالم کا علم جس کے "سلونی" کی زد میں ہو | |
رکھتا ہو بہرِ دیں جو ہتھیلی پہ جان کو | ||
وہ کیوں نہ ٹھوکروں پہ گمائے جہان کو | ||
سجدے غلام جس کے، عبادت کنیز ہو | جس کے لیے قضا و قدر گھر کی چیز ہو | |
ایمان و کفر میں جو نشانِ تمیز ہو | خود اپنی زندگی سے جسے حق عزیز ہو | |
وہ جس کو اہلِ علم ، صداقت کا گھر کہیں | ||
سب لوگ جس کو شہرِ نبوت کا در کہیں | ||
ارض و سما پہ جس کی سدا حکمرانیاں | وہ جس کے بچپنے پہ ہوں قرباں جوانیاں | |
بکھری ہیں جس کے رُخ پہ خدا کی نشانیاں | جس کے قدم کی گرد بنیں کامرانیاں | |
جس کا مزاج وجہِ غرورِ صمد بنے | ||
جس کا لکھا بہشتِ بریں کی سند بنے | ||
جو دینِ کبریا کا مقدّر ہے وہ علی ؑ | جو منبرِ قضا کا سخنور ہے وہ علی ؑ | |
جو حق کی رحمتوں کا سمندر ہے وہ علی ؑ | جو بابِ شہر ِ علمِ پیمبر ؐ ہے وہ علی ؑ | |
میداں میں جو بشر کو متاعِ ضمیر دے | ||
جھولے میں ہو تو کلّۂ اژدر کو چیر دے | ||
کعبے سے پوچھ رتبۂ کرّارِ ذی حشم | سر عرش پر ہے، پشتِ زمانہ پہ ہیں قدم | |
یا پھر غدیرِ خم سے اُڑا کچھ تو کیف و کم | پھر دیکھ بُوتراب ہیں کس درجہ محترم؟ | |
سمٹے تو "ب" کے نقطے کا عکاس ہے علی ؑ | ||
پھیلے تو تابہ سرحدِ "والنّاس" ہے علی ؑ | ||
آ مرتضیٰ ؑ کو دیکھ رکوع و سجود میں | بے مثل و بے نظیر قیام و قعود میں | |
تائیدِ حق کا عکس ہے جس کے وجود میں | شامل ہے جس کا نام ہمیشہ درود میں | |
جو دشت کو خزاں میں بہاریں عطا کرے | ||
"اندھے بھکاریوں" کو قطاریں عطا کرے | ||
حیدر ؑ رضائے حق کی اطاعت کا نام ہے | حیدرؑ اَنا پرست شجاعت کا نام ہے | |
حیدر ؑ مزاجِ دیں کی شرافت کا نام ہے | حیدر ؑ ازل سے روحِ عبادت کا نام ہے | |
حیدر ؑ نبیؐ کا ناز ہے، حُسنِ یقین ہے | ||
حیدر ؑ سوارِ پشتِ دلِ ماء و طین ہے | ||
"کعبہ" ہے جس کی جائے ولادت وہ شیرخوار | "مسجد" میں پا گیا جو شہادت وہ تاجدار | |
بستر رسولؐ کا ہے جسے وجہِ افتخار | سب تک دلِ وجود پہ ہے جس کا اقتدار | |
جس کا کرم ہی چشمۂ آب ِ حیات ہے | ||
یہ کائنات جس کے بدن کی زکوٰۃ ہے | ||
میری عقیدتوں کے لیے آستاں علی ؑ | وسعت میں ایک تاروں بھرا آسماں علی ؑ | |
خالق کی عظمتوں کا حسیں کارواں علی ؑ | معراج میں نبیؐ کا ہوا رازداں علی ؑ | |
جی چاہتا ہے بات سدا معتبر کہوں | ||
مولا ؑ کے نقشِ پا کو میں شمس و قمر کہوں | ||
ساقی! پلا کہ جامِ وِلا مختصر نہ ہو | جی چاہتا ہے اب یہ گھٹا مختصر نہ ہو | |
اَبر و عبیر و بادِ صبا مختصر نہ ہو | موجِ درود و حمد و ثنا مختصر نہ ہو | |
اِک جام اور دے کہ نیا طَور مانگ لوں! | ||
مولائے کائنات سے کچھ اور مانگ لوں | ||
مولا ؑ! تِرے مزاجِ سخاوت کی خیر ہو | تیری اَنا کی خیر، محبت کی خیر ہو | |
اے دیں کے تاجور تِری عظمت کی خیر ہو | تیرے شعور، تیری حکومت کی خیر ہو | |
مجھ کو شعورِ فکر کی جاگیر بخش دے | ||
میری دعا کو بھی ذرا تاثیر بخش دے | ||
ملبوسِ حرف کو نئے موسم کا رنگ دے | دِل کی اُداسیوں کو اَنا کی ترنگ دے | |
سودائے سر کو لذتِ دیدارِ سنگ دے | بے آسرا حیات کو تازہ اُمنگ دے | |
تصویر جذبِ مالکِ اشتر دکھا مجھے | ||
بوذرؔ کی زندگی کا قرینہ سکھا مجھے | ||
زوجِ بتول ؑ، اے میرے مشکل کشا! سلام | بعد از رسولؐ، دہر کے حاجت روا ، سلام | |
اے شہسوارِ اَشہبِ صبح و مسا، سلام | رَمز آشنائے گردش ِ ارض و سما ، سلام | |
چاہے تو میرے لفظ نگینوں میں ڈھال دے | ||
دامن میں ورنہ گردِ کفِ پا ہی ڈال دے | ||
اے رازِ کُن کے حقیقی امین، سُن! | اے دوشِ کائنات کے مسند نشین، سُن! | |
اے وارثِ نظامِ یسار و یمین ، سُن! | اے محورِ شعاعِ دلِ ماء و طین، سُن! | |
اتنا سا معجزہ بھی تِرے حق میں نیک ہے | ||
اب بھی تِرا حسین ؑ زمانے میں ایک ہے[1] |
حوالہ جات
- ↑ محسن نقوی، موجِ ادراک: ص59
مآخذ
- محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، 2007ء.