"اے زمینِ کربلا اے آسمانِ کربلا" کے نسخوں کے درمیان فرق

شیعہ اشعار سے
(«{{جعبه اطلاعات شعر | عنوان = اے زمین کربلا اے آسمان کربلا | تصویر = | توضیح تصویر = | شاعر کا نام = افتخار عارف | قالب = سلام | وزن = فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن | موضوع = امام حسین ٔ | مناسبت = محرم الحرم | زبان = اردو | تعدادبند = 7 بند | منبع = }} '''...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
سطر 12: سطر 12:
  | منبع =   
  | منبع =   
}}
}}
''' ​اے زمین کربلا اے آسمان کربلا '''  
'''اے زمین کربلا اے آسمان کربلا ''': یہ جناب  افتخار عارف کا لکھا ہوا سلام ہے۔
 
==تعارف==
==تعارف==
یہ جناب  افتخار عارف کا لکھا ہوا سلام ہے۔
==مکمل کلام==
==مکمل کلام==
اس سلام میں شہداء کربلا کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے؛سلام کے مطلع میں آسمانِ کربلا کو مخاطب کر کے پوچھا گیا ہے کہ اے آسمانِ کربلا تجھے تو کربلا کے شہداء یاد آتے ہوں گے؟؛اس کے بعد کچھ شعروں میں حضرت عباس،شہزادہ علی اصغر،جناب حراور نوک نیزہ پر سر مقدس امام حسین کی تلاوت کا نہایت دلکش انداز میں تذکرہ کیا گیا ہے۔
اس سلام میں شہداء کربلا کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے؛سلام کے مطلع میں آسمانِ کربلا کو مخاطب کر کے پوچھا گیا ہے کہ اے آسمانِ کربلا تجھے تو کربلا کے شہداء یاد آتے ہوں گے؟؛اس کے بعد کچھ شعروں میں حضرت عباس،شہزادہ علی اصغر،جناب حراور نوک نیزہ پر سر مقدس امام حسین کی تلاوت کا نہایت دلکش انداز میں تذکرہ کیا گیا ہے۔

حالیہ نسخہ بمطابق 14:59، 6 نومبر 2023ء

اے زمین کربلا اے آسمان کربلا
معلومات
شاعر کا نامافتخار عارف
قالبسلام
وزنفاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
موضوعامام حسین ٔ
مناسبتمحرم الحرم
زباناردو


اے زمین کربلا اے آسمان کربلا : یہ جناب افتخار عارف کا لکھا ہوا سلام ہے۔

تعارف

مکمل کلام

اس سلام میں شہداء کربلا کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے؛سلام کے مطلع میں آسمانِ کربلا کو مخاطب کر کے پوچھا گیا ہے کہ اے آسمانِ کربلا تجھے تو کربلا کے شہداء یاد آتے ہوں گے؟؛اس کے بعد کچھ شعروں میں حضرت عباس،شہزادہ علی اصغر،جناب حراور نوک نیزہ پر سر مقدس امام حسین کی تلاوت کا نہایت دلکش انداز میں تذکرہ کیا گیا ہے۔

​اے زمین کربلا اے آسمان کربلا
تجھ کو یاد آتے تو ہوں گے رفتگانِ کربلا
​کر رہے ہیں ذکر ان کے حق کو پہچانے بغیر
سلسلے باطل کے اور زعمِ بیان کربلا
کچھ بریدہ بازؤں والے نے لکھی ریت پر​
کچھ کہانی کہہ گیا اک بے زبانِ کربلا
اپنے اپنے زاویے سے اپنے اپنے ڈھنگ سے​
ایک عالم لکھ رہا ہے داستانِ کربلا
مصحف ناطق تلاوت کر رہا تھا وقتِ عصر​
سن رہے تھے خاک پر آسودگانِ کربلا
​ٹھوکروں میں ہے شکوہ و شوکتِ دربار شام
کوئی حُر کے دل سے پوچھے عزّ و شانِ کربلا
​استغاثے کی صدا آئی ہے اٹّھو افتخار!
استغاثہ جس میں شامل ہے اذانِ کربلا [1]

حوالہ جات

افتخارعارف،شہرِ علم کے دروازے پر،ص49۔

  1. افتخارعارف،شہرِ علم کے دروازے پر،ص49

مآخذ

  • افتخار عارف،شہرِ علم کے دروازے پر،کراچی،پاکستان،اکتوبر 2005ء۔