"علی کی بیٹی" کے نسخوں کے درمیان فرق
Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←مآخذ) |
Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←مآخذ) |
||
(ایک ہی صارف کا 5 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے) | |||
سطر 1: | سطر 1: | ||
'''علی | {{جعبه اطلاعات شعر | ||
| عنوان = | |||
| تصویر = | |||
| توضیح تصویر = | |||
| شاعر کا نام = محسن نقوی | |||
| قالب = منقبت | |||
| وزن = مفاعلات مفاعلات مفاعلات مفاعلات | |||
| موضوع = حضرت زینب ؑ | |||
| مناسبت = | |||
| زبان = اردو | |||
| تعداد بند = 14 بند | |||
| منبع = | |||
}} | |||
'''علی کی بیٹی:''' حماد اہل بیت ؑ سید [[محسن نقوی]] کا شاہکار کلام [[حضرت زینب]] ؑ کی قربانی اور شجاعت و بہادری کے حضور ایک خراج عقیدت ہے۔ | |||
==تعارف== | ==تعارف== | ||
یہ کلام | یہ کلام کربلا کی شیر دل خاتون صدیقہ صغریٰ حضرت زینب کبریٰ ؑ کے بارے میں اردو الفاظ اور تراکیب کا انتہائی خوبصورت مرقع ہے۔ | ||
==مکمل کلام== | ==مکمل کلام== | ||
سطر 24: | سطر 37: | ||
{{پانویس}} | {{پانویس}} | ||
== مآخذ== | == مآخذ== | ||
* محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، | * محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، 2007ء. | ||
[[زمرہ: محسن نقوی کے دیگر کلام]] |
حالیہ نسخہ بمطابق 16:32، 11 دسمبر 2023ء
معلومات | |
---|---|
شاعر کا نام | محسن نقوی |
قالب | منقبت |
وزن | مفاعلات مفاعلات مفاعلات مفاعلات |
موضوع | حضرت زینب ؑ |
زبان | اردو |
تعداد بند | 14 بند |
علی کی بیٹی: حماد اہل بیت ؑ سید محسن نقوی کا شاہکار کلام حضرت زینب ؑ کی قربانی اور شجاعت و بہادری کے حضور ایک خراج عقیدت ہے۔
تعارف
یہ کلام کربلا کی شیر دل خاتون صدیقہ صغریٰ حضرت زینب کبریٰ ؑ کے بارے میں اردو الفاظ اور تراکیب کا انتہائی خوبصورت مرقع ہے۔
مکمل کلام
قدم قدم پر چراغ ایسے جلا گئی ہے علی ؑ کی بیٹی | یزیدیت کی ہر ایک سازش پہ چھا گئی ہے علی ؑ کی بیٹی | |
کہیں بھی ایوانِ ظلم تعمیر ہو سکے گا نہ اب جہاں میں | ستم کی بنیاد اس طرح سے ہلا گئی ہے علی ؑ کی بیٹی | |
عجب مسیحا مزاج خاتون تھی کہ لفظوں کے کیمیا سے | حسینیت کو بھی سانس لینا سکھا گئی ہے علی ؑ کی بیٹی | |
بھٹک رہا تھا، دماغِ انسانیت، جہالت کی تیرگی میں | جہنم کے اندھے بشر کو رستہ دکھا گئی ہے علی ؑ کی بیٹی | |
دکانِ وحدت کے جوہری دم بخود ہیں اس معجزے پہ ابتک | کہ سنگ ریزوں کو آبگینے بنا گئی ہے علی ؑ کی بیٹی | |
خبر کرو اہلِ جور کو کہ اب حسینیت انتقام لے گی | یزیدیت سے سنبل جائے، آ گئی ہے علی ؑ کی بیٹی | |
نبی کا دین اب سنور سنور کے یہ بات تسلیم کر رہا ہے | اجڑ کے بھی انبیاء کے وعدے نبھا گئی ہے علی ؑ کی بیٹی | |
نہ کوئی لشکر، نہ سر پہ چادر، مگر نجانے ہوا میں کیونکر | غرورِ ظلم و ستم کے پُرزے اڑا گئی ہے علی ؑ کی بیٹی | |
پہن کے خاکِ شفا کا احرام، سر برہنہ طواف کر کے | حسین ؑ! تیری لحد کو کعبہ بنا گئی ہے علی ؑ کی بیٹی | |
کئی خزانے سفر کے دوران کر گئی خاک کے حوالے | کہ پتھروں کی جڑوں میں ہیرے چھپا گئی ہے علی ؑ کی بیٹی | |
یقیں نہ آئے تو کوفہ و شام کی فضاؤں سے پوچھ لینا | یزیدیت کے نقوش سارے مٹا گئی ہے علی ؑ کی بیٹی | |
ابد تلک اب نہ سر اُٹھا کے چلے گا کوئی یزید زادہ | غرورِ شاہی کو خاک میں یوں ملا گئی ہے علی ؑ کی بیٹی | |
گزر کے چپ چاپ لاشِ اکبر سے پا برہنہ رسن پہن کر | خود اپنے بیٹوں کے قاتلوں کو رلا گئی ہے علی ؑ کی بیٹی | |
میں اس کے در کے گداگروں کا غلام بن کے چلا تھا محسنؔ | اسی لئے مجھ کو رنج و غم سے بچا گئی ہے علی ؑ کی بیٹی[1] |
حوالہ جات
- ↑ محسن نقوی، موجِ ادراک: ص140۔
مآخذ
- محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، 2007ء.