"جب خدا کو پکارا علی ؑ آگئے" کے نسخوں کے درمیان فرق
(«'''جب خدا کو پکارا علی ؑ آگئے''' اس معروف منقبت کے شاعر جناب پروفیسر سید سبط جعفر زیدی ہیں۔ ==تعارف== اس منقبت میں حضرت علی ؑ کے فضائل کے ساتھ ساتھ آپ ؑ کی مظلومیت کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ استاد سبط جعفر شہید ؒ مکمل کلاموں پر بعض مناسبتوں سے کچھ اش...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا) |
(کوئی فرق نہیں)
|
نسخہ بمطابق 14:24، 1 جون 2023ء
جب خدا کو پکارا علی ؑ آگئے اس معروف منقبت کے شاعر جناب پروفیسر سید سبط جعفر زیدی ہیں۔
تعارف
اس منقبت میں حضرت علی ؑ کے فضائل کے ساتھ ساتھ آپ ؑ کی مظلومیت کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ استاد سبط جعفر شہید ؒ مکمل کلاموں پر بعض مناسبتوں سے کچھ اشعار کا مزید اضافہ کر دیا کرتے تھے جس کا ایک نمونہ پیش نظر منقبت ہے جس پر مقطع کے بعد مصائب کے کچھ اشعار کا اضافہ کیا گیا ہے اس لیے مقطع وسط کلام میں آیا ہے۔ ہم نے بھی امانت داری کے تحت ماخذ کی ترتیب کو باقی رکھا ہے۔
مکمل کلام
جب خدا کو پکارا علی ؑ آگئے، جب علی ؑ آگئے زندگی آگئی | ||
زندگی بندگی روشنی آگئی، روشنی آگئی آگہی آگئی | ||
موت ان کے محبوں کو آتی نہیں، آبھی جائے تو پھر بچ کے جاتی نہیں | ||
موت کا کیا خطر، موت سے کیا حذر، اس سے بچنا بھی کیا! آگئی ، آگئی | ||
غسلِ میت نہ کہنا مِرے غسل کو، اجلے ملبوس کو مت کفن نام دو | ||
میں چلا ہوں علی ؑ سے ملاقات کو، جس کی تھی آرزو وہ گھڑی آگئی | ||
جبرئیل ؑ اور قنبر پہ کیا منحصر ، در تِرا چھوڑ کر کوئی جاتا نہیں | ||
جو غلامی کا تیری مزہ پا گیا، راس جس کو تِری بندگی آگئی | ||
"جس کا مولا تھا میں اُس کا مولا علی ؑ" جب نبی ؐ نے کہا، دین کامل ہوا | ||
مرحبا مصطفیِٰ رب بھی راضی ہوا، وہ جو آنا تھی آیت ، وہی آگئی | ||
تیری مسند پہ غیروں کو بٹھلا دیا، نائب مصطفیٰؐ ، مظہرِ کبریا | ||
تو وصی و ولی و علی ہی رہا، منزلت میں تِری کیا کمی آگئی | ||
مسلکِ عشق میں مانگنا عیب ہے، میں بھی خاموش ہوں ، وہ بھی خاموش ہے | ||
اُن کو سب ہے خبر، اس لیے چپ ہوں میں، کیا ہوا آنکھ میں گر نمی آگئی | ||
خمس دینا مودّت کی اِک شرط ہے اور نہ دینا بھی مثلِ فدک ہے گناہ | ||
حق سادات و زہرا ؑ کے مقروض سے ، جب تبرا سنا تو ہنسی آگئی | ||
آگ لے کر کوئی تیرے در پر گیا، ریسماں لے کے کوئی تِرے گھر گیا | ||
میرے مولا تِرے کربِ تنہائی کا جب خیال آگیا جھرجھری آگئی | ||
عشق جب تک نہ ہو شعر ہوتا نہیں، مجھ میں کب اہلیت تھی تِری مدح کی | ||
میرے مولا میں قرباں تِرے عشق کے، سبطِ جعفر کو بھی شاعری آگئی | ||
صبح عاشور اکبر ؑ سے شہ نے کہا، اے شبیہ نبی، میرے نورِ نظر | ||
جو بسر ہوگئی آخری رات تھی، اب اذان و سحر آخری آگئی | ||
اپنے ہونٹوں پہ سوکھی زباں پھیر کر میری جاں تم بھی اِتمامِ حجت کرو | ||
کہہ رہے تھے جب اصغر ؑ سے یہ شاہِ دیں، اِک تلاطم میں فوجِ شقی آگئی | ||
پیاس سے میں تو مرجاتا کچھ دیر میں، حرملا تو نے ناحق یہ بیداد کی | ||
حرملا کی حماقت پہ یہ سوچ کر ننھے اصغر ؑ کو رَن میں ہنسی آگئی | ||
مرد کوئی نہ باقی بچا عصر تک، صرف سجاد ؑ تھے وہ بھی بے ہوش تھے | ||
اور تھا کون نصرت کو شبیر ؑ کی ، بے کسی آگئی، بے بسی آگئی | ||
کربلا اور کوفے کی بھی زحمتیں کم نہ تھیں یوں تو اہلِ حرم کے لیے | ||
اشک رو کے رکے پھر نہ سجاد ؑ کے یاد جب بھی کبھی شام کی آگئی | ||
کربلا اور کوفے تو ہو آئے تھے لوگ دشمن ہیں کیوں اجنبی شہر کے | ||
کھائے پتھر تو زینب ؑ لگیں پوچھنے ، اماں فضہ! جگہ کون سی آگئی[1] |
حوالہ جات
- ↑ زیدی، بستہ: ص368
مآخذ
- زیدی، پروفیسر سید سبط جعفر، بستہ، کراچی، محفوظ بک ایجنسی، طبع سوم، 1432ھ، 2011ء۔