"میری جاں بہ لب بہنا میری دلربا بہنا" کے نسخوں کے درمیان فرق
Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («{{جعبه اطلاعات شعر | عنوان = | تصویر = | توضیح تصویر = | شاعر کا نام = میر مستحسن خلیؔق | قالب = نوحہ | وزن = فاعِلن مفاعیلن فاعِلن مفاعیلن | موضوع = گریہ امام سجاد ؑ | مناسبت = شہادت جناب سکینہ ؑ | زبان = اردو | تعداد بند = 15 بند | منبع = }} '''میری جاں بہ...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا) |
Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 38: | سطر 38: | ||
== مآخذ== | == مآخذ== | ||
* کشمیری، اکبر حیدری ( پروفیسر)، | * کشمیری، اکبر حیدری ( پروفیسر)، مراثئ میر خلیؔق، کراچی، مرثیہ فاؤنڈیشن، 1418ھ/ 1997ء | ||
[[زمرہ: میر خلیق کے دیگر کلام]] | [[زمرہ: میر خلیق کے دیگر کلام]] |
نسخہ بمطابق 21:19، 12 دسمبر 2023ء
معلومات | |
---|---|
شاعر کا نام | میر مستحسن خلیؔق |
قالب | نوحہ |
وزن | فاعِلن مفاعیلن فاعِلن مفاعیلن |
موضوع | گریہ امام سجاد ؑ |
مناسبت | شہادت جناب سکینہ ؑ |
زبان | اردو |
تعداد بند | 15 بند |
میری جاں بہ لب بہنا میری دلربا بہنا: میر خلیق کا لکھا ہوا نوحہ ہے۔
تعارف
اس نوحے میں جناب سکینہ ؑ کی لاش پر امام زین العابدین ؑ کے بین کو اردو شاعری کی زباں دی گئی ہے۔
مکمل کلام
میری جاں بہ لب بہنا ، میری دلربا بہنا | لو تمہیں مبارک ہو باپ تو ملا بہنا | |
میں نے باپ کا حلقوم تیغ سے کٹا دیکھا | دیکھتے ہی تو مر گئی سنہ ہو بھرا بہنا | |
کچھ قصور خدمت میں میں نہیں کیا بی بی | باباجان سے میرا کیجو مت گلا بہنا | |
بے نصیب مجھ سا بھی کون ہوگا دنیا میں | باپ اس طرف چھوٹا، یوں ہوئی جدا بہنا | |
ماں کی چھوڑ کر گودی باپ کی لگی چھاتی | اماں جاں کی خدمت کا کیا عوض یہ تھا بہنا | |
کچھ اگر محبت ہے تم کو بھائی کی اپنے | باپ سے سفارش کر لو مجھے بلا بہنا | |
رفتہ رفتہ جا پہنچے میرے ساتھی منزل پر | پیچھے قافلے کے ایک میں ہی رہ گیا بہنا | |
خوان کھانے کا یاں کون قیدیوں کو بھیجے تھا | باپ کا جو سر دیکھا تب یہ سِر کھلا بہنا | |
تم کو خوابِ راحت سے میں جگا نہیں سکتا | سوئیں تم تو بابا کے منہ سے منہ لگا بہنا | |
حال قیدیوں کا گر تم سے پوچھیں بابا جاں | بھول جانا مت مجھ کو اس گھڑی بھلا بہنا | |
ماتھا رکھ کے ماتھے پر باپ کے ہوئی بے دم | سرنوشت میں تیری تھا یہی لکھا بہنا | |
مرتبہ ہو یہ جس کا نام لے وہ الفت کا | آفریں تجھے بہنا تجھ کو مرحبا بہنا | |
گروطن میں پوچھے گی تجھ کو فاطمہ صغرا | چھاتی پھٹتی ہے میری میں کہوں گا کیا بہنا | |
تجھ کو میں کفن کیونکر دوں عجب خرابی ہے | ایک ایک کے سر سے چھن گئی ردا بہنا | |
دفن کرکے پھر بولا اے خلیؔق وہ عابد ؑ | لو تمہاری تربت کا حافظ اب خدا بہنا[1] |
حوالہ جات
- ↑ کشمیری، مراثئ میر خلیؔق: ص95
مآخذ
- کشمیری، اکبر حیدری ( پروفیسر)، مراثئ میر خلیؔق، کراچی، مرثیہ فاؤنڈیشن، 1418ھ/ 1997ء