"نگہبان رسالت" کے نسخوں کے درمیان فرق

شیعہ اشعار سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(ایک ہی صارف کا ایک درمیانی نسخہ نہیں دکھایا گیا)
سطر 12: سطر 12:
  | منبع =   
  | منبع =   
}}
}}
'''نگہبانؑ رسالت ؐ:''' حضرت ابوطالب ؑ کی شان میں معروف شاعر حماد اہل بیت ؑ سید [[محسن نقوی]] کا کلام ہے۔  
'''نگہبان رسالت:''' حضرت ابوطالب ؑ کی شان میں معروف شاعر حماد اہل بیت ؑ سید [[محسن نقوی]] کا کلام ہے۔  


==تعارف==
==تعارف==
سطر 89: سطر 89:


== مآخذ==
== مآخذ==
* محسن نقوی، میراثِ محسن، لاهور، ماورا پبلشرز، ۲۰۰۷م.
* محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، 2007ء.
[[زمرہ: محسن نقوی کے دیگر کلام]]
[[زمرہ: محسن نقوی کے دیگر کلام]]
[[زمرہ: جناب ابوطالب پر مزید کلام]]
[[زمرہ: جناب ابوطالب پر مزید کلام]]

حالیہ نسخہ بمطابق 16:34، 11 دسمبر 2023ء

نگہبان رسالت
معلومات
شاعر کا ناممحسن نقوی
قالبسلام
وزنفاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
موضوععزاداری اور اہل عزا
زباناردو
تعداد بند13 بند


نگہبان رسالت: حضرت ابوطالب ؑ کی شان میں معروف شاعر حماد اہل بیت ؑ سید محسن نقوی کا کلام ہے۔

تعارف

اس مسدس کے کل اشعار کی تعداد 13 ہیں جو 78 مصرعے بنتے ہیں۔ محسن نقوی کی رشحات قلم کا یہ شاہکار، حضرت ابوطالب ؑ کی شان میں اردو کے نمائندہ کلام کا درجہ رکھتا ہے۔

مکمل کلام

وہ حقیقی مردِ مؤمن، پیکرِ عزم و ثباتجس نے ٹھوکر سے الٹ دی بولہب کی کائنات
ضامنِ عزمِ پیمبر ؐ بن گئی جس کی حیاتجس کے بچوں کی وراثت تھے جہاں کے معجزات
جس نے رکھ لی آبرو انسانیت کے نام کی!
جس نے لُٹ کر پرورش کی ناتواں اسلام کی
جس کی آغوشِ محبت میں پلی پیغمبریجس نے بخشی آدمیت کو فلک تک برتری
دفن کردی جس نے استبداد کی غارت گریبت تراشی، بت پرستی، بت نوازی، بت گری
جس نے بخشی تھی تجھے توقیرِ عرفاں یاد کر
اے بنی آدم ابوطالب ؑ کے احساں یاد کر
شیخ بطحا، ناصرِ دیں، سیّدِ عالی نسببحرِ علم و فضل و شہرِ جُود و معیارِ ادب
پالیے جس نے رموزِ آدمیت بے طلبجس کی ہیبت سے لرزتے تھے خدوخالِ عرب
وہ سخی جو اسخیاء میں مثل اپنی آپ تھا
وہ بہادر جو شجاعت میں علی ؑ کا باپ تھا
وہ نبوت کا مصدِّق وہ اُخوت کا مدارجس نے بخشا ضعفِ انسانی کو یزداں کا وقار
وہ مزاجِ آشتی کی سلطنت کا تاجدارجس کی نسلوں میں نہاں تھی قوت پروردگار
حوصلہ جس کا مزاجِ عزمِ سرور ؐ ہوگیا
جس کی شہ رگ کا لہو پھیلا تو حیدر ؑ ہوگیا
جس کے چہرے پر فروزاں تھی شجاعت کی شفقجس کی آنکھوں میں رواں تھی آدمیت کی رمق
جس کی پیشانی تھی تاریخِ صداقت کا ورقوہ ابوطالب جسے مطلوب تھا عرفانِ حق
جس نے سینے سے لگایا حادثوں کو جھوم کر
چھا گیا جو زندگی پر موت کا منہ چوم کر
وہ نگہدارِ محمد ؐ، وہ نگہبانِ حرموہ جھلستے ریگزاروں کے لیے ابرِ کرم
وہ عرب زادوں کے لہجے میں انیسِ محترموہ شبستانِ رسالت میں چراغاں کا بھرم
آیۂ تطہیرہے جس کے گھرانے کے لیے
جس کی نسلیں کٹ گئیں حق کو بچانے کے لیے
جس کے سنگِ در پہ جھکتی ہو زمانے کی جبیںجس کا پیکر ہو پیمبر ؐ کی صداقت کا امیں
جس کی قربت میں سکوں پائے امام المرسلیںوہ بھٹک جائے رہِ حق سے؟ نہیں، ممکن نہیں
اُس کی ہستی کو خدا کی شان کہنا چاہیے
اُس کی جاں کو محورِ ایمان کہنا چاہیے
جس نے ہر مشکل میں کی ہو وارثِ دیں کی مددجس کی گردِ پا کو چومے فاطمہ ؑ بنتِ اسدؑ
جو علی ؑ سے مہدئ دیں ؑ تک امامت کی ہو جدجس کے بیٹے کو ملی ہو "کُلِّ ایماں" کی سند
کون کہتا ہے کہ اُس کے دل میں جذبِ دل نہ تھا؟
کون کہتا ہے کہ وہ خود مؤمنِ کامل نہ تھا؟
جس کے لب سرچشمۂ اعجازِ صد حمد و درودجس کے لہجے میں خمارِ آیۂ حق کا ورود
جس کا پیکر جلوۂ صد رنگ کی جائے نمودتوڑ ڈالیں جس نے عصرِ جہل کی ساری قیود
جس کی صہبائے تفکر عافیت آمیز تھی
جس کے احساسِ اَنا کی لَو قیامت خیز تھی
جس کی پیشانی کا بل، موجِ غرورِ کردگارجس کے ابرو کی کماں ہو گردشِ لیل و نہار
وہ یداللہ کا پدر، وہ مصطفےٰ ؐ کا افتخارجس کو دھرتی پر ملا ہو مفلسی میں اقتدار
جس کے پوتے کا زمیں پر مقتدیٰ عیسیٰ ؑ بنے
کیا کہوں محشر میں اُس کا مرتبہ کیا کیا بنے؟
وہ شعور و علم و حکمت کا حقیقی امتزاججس کے فرقِ ناز پر جچتا ہو سرداری کا تاج
یہ بھی کیا کم ہے، بشر کی آدمیت کا مزاجآج تک "شعبِ ابی طالب" کو دیتا ہے خراج
کس کو اندازہ ہے اُس کی عظمتِ ایمان کا
بانئ اسلام ؐ خود ممنون ہے عمران ؑ کا
اے مؤرخ وقت کے مغرور کرداروں سے پوچھ!پوچھ، تاریخِ عرب کے سب ستمگاروں سے پوچھ!
کربلا میں ٹوٹتی بے لوچ تلواروں سے پوچھ!شام کی گلیوں سے، چوراہوں سے، بازاروں سے پوچھ!
ذرّیت کس کی یزیدی حوصلوں پر چھا گئی؟
کس کی پوتی ظلم و استبداد سے ٹکرا گئی؟
بول اے تاریخ کے زندہ اصولوں کی زباںکس کے بام و در سے ٹکراتی رہی ہیں بجلیاں؟
کون باطل کے مقابل آج تک ہے کامراں؟سوئے کوفہ پابجولاں تھا وہ کس کا کارواں؟
کس نے صدموں کو صدا دی حق پسندی کے لیے؟
کس گھر اجڑا تھا دیں کی سربلندی کے لیے؟[1]

حوالہ جات

  1. محسن نقوی، موجِ ادراک: ص15

مآخذ

  • محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، 2007ء.