"غمِ شبیر اپنی زندگی ہے" کے نسخوں کے درمیان فرق

شیعہ اشعار سے
(«'''غمِ شبیر اپنی زندگی ہے''' حماد اہل بیت ؑ سید محسن نقوی کا لکھا ہوا سلام ہے۔ ==تعارف== سلام کے ان اشعار میں کربلا کو جنت کہتے ہوئے غمِ حسین ؑ کو زندگی اور ہر چیز سے قیمتی جانا گیا ہے اور ایک آنسو کے بدلے حصول جنت کی وجہ سے اس غم کو سب سخیوں پر برتر...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
 
 
(ایک ہی صارف کا 2 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1: سطر 1:
{{جعبه اطلاعات شعر
| عنوان =
| تصویر =
| توضیح تصویر =
| شاعر کا نام = محسن نقوی
| قالب = سلام
| وزن = مفاعیلن مفاعیلن فعولن
| موضوع = محبت اہل بیت، عزاداری
| مناسبت =
| زبان = اردو
| تعداد بند = 9 بند
| منبع = 
}}
'''غمِ شبیر اپنی زندگی ہے''' حماد اہل بیت ؑ سید [[محسن نقوی]] کا لکھا ہوا سلام ہے۔
'''غمِ شبیر اپنی زندگی ہے''' حماد اہل بیت ؑ سید [[محسن نقوی]] کا لکھا ہوا سلام ہے۔


سطر 19: سطر 32:
{{پانویس}}
{{پانویس}}
== مآخذ==
== مآخذ==
* محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، ۲۰۰۷م.
* محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، 2007ء.
[[زمرہ: محسن نقوی کے دیگر کلام]]

حالیہ نسخہ بمطابق 16:32، 11 دسمبر 2023ء

غمِ شبیر اپنی زندگی ہے
معلومات
شاعر کا ناممحسن نقوی
قالبسلام
وزنمفاعیلن مفاعیلن فعولن
موضوعمحبت اہل بیت، عزاداری
زباناردو
تعداد بند9 بند


غمِ شبیر اپنی زندگی ہے حماد اہل بیت ؑ سید محسن نقوی کا لکھا ہوا سلام ہے۔

تعارف

سلام کے ان اشعار میں کربلا کو جنت کہتے ہوئے غمِ حسین ؑ کو زندگی اور ہر چیز سے قیمتی جانا گیا ہے اور ایک آنسو کے بدلے حصول جنت کی وجہ سے اس غم کو سب سخیوں پر برتری دی گئی ہے۔ اسی طرح در حسین ؑ کی نوکری کو دونوں کی شاہی سے تعبیر کیا گیا ہے۔

مکمل کلام

غمِ شبیر اپنی زندگی ہےیہ غم دونوں جہاں سے قیمتی ہے
ہمیں حُبِ علی ؑ پیاری ہے سب سےکہ ماں کی گود سے ہم کو ملی ہے
خدایا کربلا میں جا کے ہم نےتِری جنت زمیں پر دیکھ لی ہے
فشار قبر سے خائف نہیں ہمفرشتوں سے ہماری دوستی ہے!
متاعِ خلد اِک آنسو کے بدلےغمِ شبیر ؑ بھی کتنا سخی ہے
کفن پہنا جو اہل کربلا نےاُسی کا نام شاید چاندنی ہے
اُسی جنت پر مرتے ہو جو دن بھر!درِ بہلول پر بکتی رہی ہے
درِ شبیر ؑ، تیری نوکری بھیدوعالم میں انوکھی افسری ہے
اندھیری قبر میں محسن اکیلا!مدد کر یا علی ؑ، مشکل گھڑی ہے[1]

حوالہ جات

  1. محسن نقوی، فراتِ فکر: ص143

مآخذ

  • محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، 2007ء.