"گزر گئے تھے کئی دن کہ گھر میں آب نہ تھا" کے نسخوں کے درمیان فرق
Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («{{جعبه اطلاعات شعر | عنوان = | تصویر = | توضیح تصویر = | شاعر کا نام = میر انیس | قالب = سلام | وزن = مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن | موضوع = امام حسین ؑ اور پانی | مناسبت = | زبان = اردو | تعداد بند = 12 بند | منبع = }} '''گزر گئے تھے کئی دن کہ گھر میں آب...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا) |
Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 23: | سطر 23: | ||
{{ب|اگر بہشت میں ہوتے نہ کوثر و تسنیم|تو رونے والوں کی آنکھوں کا پھر جواب نہ تھا}} | {{ب|اگر بہشت میں ہوتے نہ کوثر و تسنیم|تو رونے والوں کی آنکھوں کا پھر جواب نہ تھا}} | ||
{{ب|نہ جانے برق کی چشمک تھی یا شرر کی لپک؟|ذرا جو آنکھ جھپک کر کھلی شباب نہ تھا}} | {{ب|نہ جانے برق کی چشمک تھی یا شرر کی لپک؟|ذرا جو آنکھ جھپک کر کھلی شباب نہ تھا}} | ||
{{ب|حسین ؑ اور طلب ِآب، اے معاذ اللہ! تمام کرتے تھے حجت، سوالِ آب نہ تھا}} | {{ب|حسین ؑ اور طلب ِآب، اے معاذ اللہ!|تمام کرتے تھے حجت، سوالِ آب نہ تھا}} | ||
{{ب|جسے نبیؐ نے بُلایا، ہوا وہ نخل نہال|ثمر اُسے بھی دئیے جو کہ باریاب نہ تھا}} | {{ب|جسے نبیؐ نے بُلایا، ہوا وہ نخل نہال|ثمر اُسے بھی دئیے جو کہ باریاب نہ تھا}} | ||
{{ب|حضورِ شاہ پھر آیا کہاں سے حرِّ شہید|خطا کی راہ میں گر جادۂ ثواب نہ تھا}} | {{ب|حضورِ شاہ پھر آیا کہاں سے حرِّ شہید|خطا کی راہ میں گر جادۂ ثواب نہ تھا}} |
حالیہ نسخہ بمطابق 22:14، 18 نومبر 2023ء
معلومات | |
---|---|
شاعر کا نام | میر انیس |
قالب | سلام |
وزن | مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن |
موضوع | امام حسین ؑ اور پانی |
زبان | اردو |
تعداد بند | 12 بند |
گزر گئے تھے کئی دن کہ گھر میں آب نہ تھا: جناب میر انیس کا لکھا ہوا سلام ہے۔
تعارف
پیش نظر سلام میں نہر علقمہ کے کنارے ہوتے ہوئے حضرت امام حسین ؑ اور ان کے اہل و عیال کی تشنگی کا تذکرہ کیا گیا ہے اس کے ساتھ ساتھ سوالِ آب کی وجہ بھی بیان کی گئی ہے۔
مکمل کلام
گزر گئے تھے کئی دن کہ گھر میں آب نہ تھا | مگر حسین ؑسے صابر کو اضطراب نہ تھا | |
نمود و بودِ بشر کیا، محیطِ عالم میں | ہوا کا جب کوئی جھونکا چلا حباب نہ تھا | |
فشار سے جو بچائیں ہوا زمیں کوعجب | صدا یہ قبر نے دی حکمِ بوتراب ؑ نہ تھا | |
اگر بہشت میں ہوتے نہ کوثر و تسنیم | تو رونے والوں کی آنکھوں کا پھر جواب نہ تھا | |
نہ جانے برق کی چشمک تھی یا شرر کی لپک؟ | ذرا جو آنکھ جھپک کر کھلی شباب نہ تھا | |
حسین ؑ اور طلب ِآب، اے معاذ اللہ! | تمام کرتے تھے حجت، سوالِ آب نہ تھا | |
جسے نبیؐ نے بُلایا، ہوا وہ نخل نہال | ثمر اُسے بھی دئیے جو کہ باریاب نہ تھا | |
حضورِ شاہ پھر آیا کہاں سے حرِّ شہید | خطا کی راہ میں گر جادۂ ثواب نہ تھا | |
علی ؑ کے پائے مبارک نے جو ضیاء پائی | وہ نور، حضرت ِموسیٰ ؑ کو دستیاب نہ تھا | |
ہر اِک کے ساتھ ہے روشن دلو !طلوع وغروب | سحر کو چاند نہ تھا، شب کو آفتاب نہ تھا | |
فقط حسین ؑ کے بچوں پہ بند تھا پانی | بہت قریب تھی وہ نہر، قحطِ آب نہ تھا | |
انیسؔ! عمر بسر کردو خاکساری میں | کہیں نہ یہ کہ غلامِ ابوتراب ؑ نہ تھا[1] |
حوالہ جات
- ↑ رضوی،روح انیس: ص246
مآخذ
- رضوی، سید مسعود الحسن، روح انیس، الٰہ آباد، انڈین پریس لمیٹڈ، بی تا.