"کوئی انیس کوئی آشنا نہیں رکھتے" کے نسخوں کے درمیان فرق
Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («{{جعبه اطلاعات شعر | عنوان = | تصویر = | توضیح تصویر = | شاعر کا نام = میر انیس | قالب = سلام | وزن = مفاعلن فعِلاتن مفاعلن فعلن | موضوع = مصائب اہل بیت ؑ | مناسبت = | زبان = اردو | تعداد بند = 18 بند | منبع = }} '''کوئی انیس، کوئی آشنا نہیں رکھتے:''' خدائے س...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا) |
(کوئی فرق نہیں)
|
نسخہ بمطابق 07:47، 13 نومبر 2023ء
معلومات | |
---|---|
شاعر کا نام | میر انیس |
قالب | سلام |
وزن | مفاعلن فعِلاتن مفاعلن فعلن |
موضوع | مصائب اہل بیت ؑ |
زبان | اردو |
تعداد بند | 18 بند |
کوئی انیس، کوئی آشنا نہیں رکھتے: خدائے سخن جناب میر انیس کا رقم کردہ سلام ہے۔
تعارف
پیش نظر سلام کے آغاز میں محبان اہل بیت ؑ کے خدا پر توکل اور صبرِ امام حسین ؑ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ پھر اشکِ عزا کی قدر و قیمت اور عزاداروں کی سرفرازی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ زندانِ شام، سربریدۂ امام اور گلوئے اصغر معصوم ؑ کے مصائب بیان کئے گئے ہیں۔
مکمل کلام
کوئی انیس، کوئی آشنا نہیں رکھتے | کسی کی آس بغیر از خدا نہیں رکھتے | |
نہ روئے بیٹوں کے غم میں حسین، واہ رے صبر | یہ داغ، ہوش بشر کے بجا نہیں رکھتے | |
کسی کو کیا ہو دلوں کی شکستگی کی خبر | کہ ٹوٹنے میں یہ شیشے صدا نہیں رکھتے | |
حسین ؑکہتے تھے سونے کو پاؤں پھیلا کر | سوائے قبر کوئی اور جا نہیں رکھتے | |
سوائے کوثر و تسنیم و خلد و باغِ بہشت | یہ اشک ہیں وہ گہر، جو بہا نہیں رکھتے | |
قناعت و گہرِ آبرو و دولتِ دیں | ہم اپنے کیسۂ خالی میں کیا نہیں رکھتے | |
فشارِ قبر کا ڈر ہو تو اُن کو ہو، جو لوگ | کفن میں صرّۂ خاکِ شفا نہیں رکھتے | |
ہمیں تو دیتا ہے رازق بغیرِ منتِ خلق | وہی سوال کریں، جو خدا نہیں رکھتے | |
فقیر دوست جو ہو، ہم کو سرفراز کرے | کچھ اور فرش، بجز بوریا نہیں رکھتے | |
غمِ حسین کے داغوں سے دل کرو روشن | خبر لحد کے اندھیروں کی کیا نہیں رکھتے | |
مسافرو! شبِ اول بہت ہے تیرہ و تار | چراغِ قبر ابھی سے جلا نہیں رکھتے | |
خدا نے آیۂ تطہیر جن کو بھیجا تھا | وہ پردہ دار سروں پر ردا نہیں رکھتے | |
سکینہ کہتی تھی، کیونکر نہ دم گھٹے، اماں! | وہاں ہیں بند، جو حجرے ہوا نہیں رکھتے | |
فلک پہ شور تھا، کٹتا ہے حلقِ پاکِ رسولؐ | حسین ؑتیغ کے نیچے گلا نہیں رکھتے | |
جہازِ آلِ نبی کیا بچے تباہی سے؟ | تلاطم ایسا ہے اور ناخدا نہیں رکھتے | |
گلوئے اصغرِ معصوم ؑو تیر، واویلا | یہ ظلم وہ ہیں کہ جو انتہا نہیں رکھتے | |
فقط حسین پہ، یہ تفرقہ پڑا، ورنہ | کسی کی لاش سے سر کو جدا نہیں رکھتے | |
انیسؔ! بیچ کے جاں اپنی ہند سے نکلو | جو توشۂ سفرِ کربلا نہیں رکھتے[1] |
حوالہ جات
- ↑ رضوی،روح انیس:ص241
مآخذ
- رضوی، سید مسعود الحسن، روح انیس، الٰہ آباد، انڈین پریس لمیٹڈ، بی تا.