"مولا نہیں ہے زیست کا یارا ترے بغیر" کے نسخوں کے درمیان فرق

شیعہ اشعار سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
ٹیگ: موبائل ترمیم موبائل ویب ترمیم
 
(ایک دوسرے صارف کا ایک درمیانی نسخہ نہیں دکھایا گیا)
سطر 13: سطر 13:
}}
}}
'''مولا نہیں ہے زیست کا یارا ترے بغیر'''  
'''مولا نہیں ہے زیست کا یارا ترے بغیر'''  
یہ[[علامہ ذیشان حیدر جوادی]] کا مولائے کائنات امیرالمؤمنین علی ُ کی مدح میں لکھا ہوا قصیدہ ہے۔
یہ [[علامہ ذیشان حیدر جوادی]] کا مولائے کائنات امیرالمؤمنین علی ُ کی مدح میں لکھا ہوا قصیدہ ہے۔


==تعارف==
==تعارف==


یہ قصیدے  7 بند پر مشتمل ہے اسمیں فضائلِ  مولا علیُ کے مختلف نورانی گوشوں کی جانب عالمانہ انداز میں اجمالی طور پر اشارہ کیا گیا ہے، جیسے:خانہِ کعبہ میں آپ کی ولادت اور آپ کا  مشکل کشائے انبیاء ہونا۔۔۔
یہ قصیدہ 7 بند پر مشتمل ہے اسمیں فضائلِ  مولا علیؑ کے مختلف نورانی گوشوں کی جانب عالمانہ انداز میں اجمالی طور پر اشارہ کیا گیا ہے، جیسے:خانہِ کعبہ میں آپ کی ولادت اور آپ کا  مشکل کشائے انبیاء ہونا۔۔۔


==مکمل کلام==
==مکمل کلام==

حالیہ نسخہ بمطابق 13:17، 11 نومبر 2023ء

مولا نہیں ہے زیست کا یارا ترے بغیر
معلومات
شاعر کا نامعلامہ ذیشان حیدر جوادی
قالبمخمس
وزنمفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن
موضوعقصیدہء امام علیؑ
مناسبت13رجب
زباناردو


مولا نہیں ہے زیست کا یارا ترے بغیر یہ علامہ ذیشان حیدر جوادی کا مولائے کائنات امیرالمؤمنین علی ُ کی مدح میں لکھا ہوا قصیدہ ہے۔

تعارف

یہ قصیدہ 7 بند پر مشتمل ہے اسمیں فضائلِ مولا علیؑ کے مختلف نورانی گوشوں کی جانب عالمانہ انداز میں اجمالی طور پر اشارہ کیا گیا ہے، جیسے:خانہِ کعبہ میں آپ کی ولادت اور آپ کا مشکل کشائے انبیاء ہونا۔۔۔

مکمل کلام



مولا نہیں ہے زیست کا یارا ترے بغیر
کس طرح ہو حیات گوارا ترے بغیر
جب ہم نے کوئی لمحہ گذارا ترے بغیر
پایا نہ کوئی ایک سہارا ترے ترے بغیر
چمکے گا کیا نصیب کا تارا ترے بغیر
مالک نے تجھ کو صاحبِ عزت بنا دیا
تیرے ہر اک عمل کو شریعت بنا دیا
قرآں کو تیرے حسن کی صورت بنا دیا
قرآں کو تیری جائے ولادت بنادیا
حق نے خود اپنا گھر نہ سنوارا ترے بغیر
مانا کہ حق سے مل گئی فردوس کی بہار
ہر ہر قدم ہ نعمتِ خالق کا تھا بہار
ہر ہر روز سے حسنِ حقیقت تھا آشکار
لیکن نہ کر سکے تری سیرت کو اختیار
آدمُ کا ہو سکا نہ گذرا ترے بغیر
گو نوحُ کو دیئے تھے خدا نے بڑے کمال
تاثیر ان پہ کر سکے کتنے ماہ و سال
کر کے دعائے غرق،دکھا تو دیا جلال
طوفان میں بھی ان کو ترا ہی رہا خیال
کشتی کو مل سکا نہ کنارہ ترے بغیر
اللہ رے وہ آتشِ نمرود کا خروش
ممکن نہ تھا کہ یو سکے شعلہ کوئی خموش
تیرا ہی تھا یہ فیض کہ ٹھنڈا ہوا وہ جوش
شعلوں میں بھی بجا تھا خلیل ِ کے ہوش
ساکن ہوا نہ کوئی شرارہ ترے بغیر
موسیُ سے پوچھے کوئی تری بات اثر
لمحوں میں تو نے کر دیا عالم ادھر ادھر
ممکن نہ تھا کہ سانپ سے ہوتا نہ کوئی ڈر
اتنا سکون تھا تری امداد کا اثر
اژدر بنا عصا نہ دربارہ ترے بغیر
یعقوبُ کو ملی ہے بصارت ترے سبب
یوسفُ رہے کنویں میں سلامت ترے سبب
دریا پہ خضرُ کی ہے حکومت ترے سبب
عیسیٰ کی آسمان پہ رفعت ترے سبب
اُترا نہ ظلم و جور کا پارہ ترے بغیر
ظلم و ستم وجہِ تباہی تو ہی ہے
اسلام کا اکیلا سپاہی تو ہی ہے
کی جس نے دیں کی پشت پناہی تو ہی ہے
باقی ہے جس سے دینِ الٰہی تو ہی تو ہے
خالق اپنا دین نہ اتارا ترے بغیر [1]

حوالہ جات

  1. علامہ ذیشان حیدر جوادی ،سلامِ کلیم،ص 79 تا81

مآخذ

  • علامہ ذیشان حیدر جوادی ،سلامِ کلیم،انڈیا(لکھنؤ),جنوری 1995ء۔