"کربلا کی خاک پر کیا آدمی سجدے میں ہے" کے نسخوں کے درمیان فرق

شیعہ اشعار سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 35: سطر 35:


{{ب|اس پہ حیرت کیا لرز اٹھی زمین ِ کربلا ​| ​}}
{{ب|اس پہ حیرت کیا لرز اٹھی زمین ِ کربلا ​| ​}}
{{ب|راکب دوش پیمبر آخری سجدے میں ہے | }}
{{ب|راکب دوش پیمبر آخری سجدے میں ہے |<ref>افتخار عارف،شہرِ علم کے دروازے پر،ص32</ref>}}
{{پایان شعر}}
{{پایان شعر}}
== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
افتخار عارف،شہرِ علم کے دروازے پر،ص32
{{پانویس}}
{{پانویس}}
== مآخذ==
== مآخذ==
*افتخار عارف،شہرِ علم کے دروازے پر،کراچی،پاکستان،اکتوبر 2005ء۔
*افتخار عارف،شہرِ علم کے دروازے پر،کراچی،پاکستان،اکتوبر 2005ء۔
  [[زمرہ: افتخار عارف کے دیگر کلام]]
  [[زمرہ: افتخار عارف کے دیگر کلام]]

نسخہ بمطابق 09:43، 7 نومبر 2023ء

کربلا کی خاک پر کیا آدمی سجدے میں ہے
معلومات
شاعر کا نامافتخار عارف
قالبغزل
وزنفاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
موضوعسلام
مناسبتمحرم الحرام
زباناردو


کربلا کی خاک پر کیا آدمی سجدے میں ہے :یہ افتخار عارف کا لکھا ہوا سلام ہے۔

تعارف

یہ منفرد ردیف "سجدے میں ہے"پر مشتمل کلام افتخار عارف کا ہے؛جس میں زمینِ کربلا پر سجدۂ امام حسین ٔ کو زندگی اور اہل باطل کو موت سے تعبیر کیا گیا ہےاور سجدۂ امام حسین ٔ کو سجدۂ علی ٔ کا تسلسل و تتمہ قرار دیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ سجدے کو طول دینا پیغمبرِؐ اسلام کی سنت ہے سو کل رسولؐ اللہ سجدے کو طول دے رہے تھے تو آج ولی اللہ سجدے کو زندگی بخش رہے ہیں۔۔۔۔

مکمل کلام

کربلا کی خاک پر کیا آدمی سجدے میں ہے ​
موت رسوا ہو چکی ہے زندگی سجدے میں ہے
​"وہ جو اک سجدہ علی کا بچ رہا تھا وقت ِفجر"
فاطمہ کا لال اب شاید اسی سجدے میں ہے
​سنتِ پیغمبرِ خاتم ہے سجدے کا یہ طول
کل نبی سجدے میں تھے آج اک ولی سجدے میں ہے
​وہ جو عاشورہ کی شب گل ہوگیا تھا اک چراغ
اب قیامت تک اسی کی روشنی سجدے میں ہے
​حشر تک جس کی قسم کھاتے رہیں گے اہلِ حق
یک نفسِ مطمئن اس دائمی سجدے میں ہے
نوکِ نیزہ پر بھی ہونی ہے تلاوت بعدِ عصر ​
مصحفِ ناطق تہِ خنجر ابھی سجدے میں ہے
اس پہ حیرت کیا لرز اٹھی زمین ِ کربلا ​
راکب دوش پیمبر آخری سجدے میں ہے [1]

حوالہ جات

  1. افتخار عارف،شہرِ علم کے دروازے پر،ص32

مآخذ

  • افتخار عارف،شہرِ علم کے دروازے پر،کراچی،پاکستان،اکتوبر 2005ء۔