"دریا ہے ہمارا" کے نسخوں کے درمیان فرق

شیعہ اشعار سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
'''دریا ہے ہمارا''' ڈاکٹر ہلال نقوی کا بہت خوبصورت کلام، جس میں حضرت عباس علمدار ؑ کی شجاعت و بہادری اور میدانِ وغا میں آپ ؑ کی رجزخوانی کو حسِین پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔
'''دریا ہے ہمارا''' [[ڈاکٹر ہلال نقوی]] کا بہت خوبصورت کلام، جس میں حضرت عباس علمدار ؑ کی شجاعت و بہادری اور میدانِ وغا میں آپ ؑ کی رجزخوانی کو حسِین پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔


==تعارف==
==تعارف==
سطر 65: سطر 65:
== مآخذ==
== مآخذ==
* مصنف کا نام،کتاب کانام، مقام اشاعت، ناشر کا نام، سن اشاعت.
* مصنف کا نام،کتاب کانام، مقام اشاعت، ناشر کا نام، سن اشاعت.
[[زمرہ: ڈاکٹر ہلال نقوی کے دیگر کلام]]

نسخہ بمطابق 14:02، 5 نومبر 2023ء

دریا ہے ہمارا ڈاکٹر ہلال نقوی کا بہت خوبصورت کلام، جس میں حضرت عباس علمدار ؑ کی شجاعت و بہادری اور میدانِ وغا میں آپ ؑ کی رجزخوانی کو حسِین پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔

تعارف

یہ کلام مخمس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکمل کلام

دریا پہ جو پہنچا اسد اللہ کا پیارا
للکار کے پھر فوج کو غازی یہ پکارا
تم سب یہی کہتے تھے کہ دریا ہے ہمارا
اب دیکھو کہ دریا ہے ہمارا یا تمہارا
لو چھین لو یہ ہم ہیں یہ قبضہ ہے ہمارا
دریا ہے ہمارا ، دریا ہے ہماراا
میں حیدر کرار کے سائے میں پلا ہوں
میں فاطمہ زہرا کی دعاوں کا صلہ ہوں
عباس میرا نام علمدار وفا ہوں
یہ نام و نسب ہے میری قسمت کا ستارا
دریا ہے ہمارا ، دریا ہے ہماراا
آقا کی دعاوں کا کرم ساتھ ہے میرے
دیکھو بنی ہاشم کا حشم ساتھ ہے میرے
رتبہ ہے علمدار علم ساتھ ہے میرے
لہرا کے پھریرا بھی یہ کرتا ہے اشارہ
دریا ہے ہمارا ، دریا ہے ہماراا
ساحل پہ جو یہ فوج کے دستے ہیں تمہارے
اک آن میں پیوند زمیں ہوں ابھی سارے
دریا الٹ آئے ابھی قدموں میں ہمارے
اک حشر بپا کر دوں، میں کر دوں جو اشارہ
دریا ہے ہمارا ، دریا ہے ہماراا
خط بھیج کے تم نے جنہیں یثرب سے بلایا
مہمان تھے لیکن انہیں دریا سے ہٹایا
پیاسے ہی رہے وہ انہیں پانی نہ پلایا
اللہ نے جن کے لئے کوثر کو اتارا
دریا ہے ہمارا ، دریا ہے ہماراا
یہ حکم ہے آقا کا نہ تلوار اٹھانا
ورنہ میری ضربوں سے لرزتا یہ زمانہ
یہ فوج جفا کار، یہ ظالم کا ٹھکانہ
اک نیزے سے نقشہ ہی بدل جائے گا سارا
دریا ہے ہمارا ، دریا ہے ہماراا
کیا فوج کی تعداد بتاتے ہو ہمیں تم
ہم دیکھیں کہ کس طرح ہٹاتے ہو ہمیں تم
کس حاکم و جابر سے ڈراتے ہو ہمیں تم
اب نام نہ لینا کسی حاکم کا دوبارہ
دریا ہے ہمارا ، دریا ہے ہماراا
پیاسا ہوں مگر سن لیں سبھی دشمن جانی
پانی مجھے پینا نہیں، لے جانا ہے پانی
ہائے میرے معصوموں کی وہ تشنہ دہانی
ہے مشک سکینہ ان ہی پیاسوں کا سہارا
دریا ہے ہمارا ، دریا ہے ہماراا
تاریخ نے دیکھا نہ ہلاؔل ایسا وفادار
اب بھی ہے ترائی کی زمیں پر وہ دل افگار
وہ دیکھ ذرا روضہ عباس علمدار
اک زندہ گواہی ہے یہ مرقد کا نظارہ
دریا ہے ہمارا ، دریا ہے ہمارا[1]ا

حوالہ جات

  1. ماخذ مطلوب

مآخذ

  • مصنف کا نام،کتاب کانام، مقام اشاعت، ناشر کا نام، سن اشاعت.