"دیارِ ہو میں کھڑا ہوں فنا کا عالم ہے" کے نسخوں کے درمیان فرق
Noori (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (« {{جعبه اطلاعات شعر | عنوان = | تصویر = | توضیح تصویر = | شاعر کا نام = خورشید رضوی | قالب = غزل | وزن = مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن | موضوع =کربلا | مناسبت = | زبان = اردو | تعدادبند = 7بند | منبع = }} '''دیارِ ہُو میں کھڑا ہوں فنا کا عالم ہے''':یہ ڈاک...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا) |
Noori (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 8: | سطر 8: | ||
| وزن = مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن | | وزن = مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن | ||
| موضوع =کربلا | | موضوع =کربلا | ||
| مناسبت = | | مناسبت = ماہِ محرم | ||
| زبان = اردو | | زبان = اردو | ||
| تعدادبند = 7بند | | تعدادبند = 7بند | ||
| منبع = | | منبع = | ||
}} | }} | ||
'''دیارِ ہُو میں کھڑا ہوں فنا کا عالم ہے''':یہ ڈاکٹر خورشید رضوی کی لکھا ہوا | |||
'''دیارِ ہُو میں کھڑا ہوں فنا کا عالم ہے''':یہ ڈاکٹر خورشید رضوی کی لکھا ہوا سلام ہے. | |||
==تعارف== | ==تعارف== | ||
اس سلام میں شاعر نے اشکِ عزا،راہ بقائے امام کربلا،دنیا کی بے بے وفائی،سانحۂ کربلا جاویدانی جسے موضوعات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ | اس سلام میں شاعر نے اشکِ عزا،راہ بقائے امام کربلا،دنیا کی بے بے وفائی،سانحۂ کربلا جاویدانی جسے موضوعات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ |
نسخہ بمطابق 13:36، 4 نومبر 2023ء
معلومات | |
---|---|
شاعر کا نام | خورشید رضوی |
قالب | غزل |
وزن | مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن |
موضوع | کربلا |
مناسبت | ماہِ محرم |
زبان | اردو |
دیارِ ہُو میں کھڑا ہوں فنا کا عالم ہے:یہ ڈاکٹر خورشید رضوی کی لکھا ہوا سلام ہے.
تعارف
اس سلام میں شاعر نے اشکِ عزا،راہ بقائے امام کربلا،دنیا کی بے بے وفائی،سانحۂ کربلا جاویدانی جسے موضوعات کی طرف اشارہ کیا ہے۔
مکمل کلام
{{ |س ایک بوند میں سب کچھ ڈبوئے بیٹھا ہوں| }}
دیارِ ہُو میں کھڑا ہوں فنا کا عالم ہے | | |
بس ایک یاد میں آبِ بقا کا عالم ہے | ||
عجیب قطرۂ اشکِ عزا کا عالم ہے | ||
مجھے تو خون رلاتی ہے وقت کی رفتار | | |
قدم قدم پہ بدلتی ہوا کا عالم ہے | ||
ذرا میں ذہن پہ سایہ فگن ردائے رسول | | |
ذرا میں قافلۂ بے نوا کا عالم ہے | ||
ذرا میں راہب دوشِ نبی کا منظرِ پاک | | |
ذرا میں اک سرِ قرآں سرا جا عالم ہے | ||
کسی کے بعد یہ عالم ہے قریۂ جاں کا | | |
کہ زندگی دلِ بے مدّعا کا عالم ہے | ||
گزر کے بھی نہیں گزرا وہ سانحہ خورشید | | |
نفس نفس میں وہی کربلا کا عالم ہے [1] |
حوالہ جات
نسبتیں،ص92 و 93
- ↑ نسبتیں،ص92و93
مآخذ
خورشید رضوی،نسبتیں،کراچی،انٹرنیشنل نعت مرکز،مئی 2015ٰۓ