"پادشاہا ترے دروازے پہ آیا ہے فقیر" کے نسخوں کے درمیان فرق
Noori (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Noori (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 13: | سطر 13: | ||
| منبع = | | منبع = | ||
}} | }} | ||
ِِ '''پادشاہا ترے دروازے پہ آیا ہے فقیر''' :یہ شریف ڈاکٹر خورشید رضوی کی لکھی ہوئی نعت ہے۔ | ِِ '''پادشاہا ترے دروازے پہ آیا ہے فقیر''' :یہ شریف ڈاکٹر خورشید رضوی کی لکھی ہوئی نعت ہے۔ | ||
==تعارف== | ==تعارف== | ||
اس نعتیہ کلام میں شاعر نے رسول اللہ کی بارگاہ ملکوتی میں اپنی شرفیابی کا نہایت عاجزانہ انداز میں اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ سلطان مدینہ اور شہر مدینہ سے والہانہ محبت کا اظہار کیا ہے۔ | اس نعتیہ کلام میں شاعر نے رسول اللہ کی بارگاہ ملکوتی میں اپنی شرفیابی کا نہایت عاجزانہ انداز میں اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ سلطان مدینہ اور شہر مدینہ سے والہانہ محبت کا اظہار کیا ہے۔ | ||
==مکمل کلام== | ==مکمل کلام== | ||
{{شعر}} | {{شعر}} | ||
{{ب| | {{ب|پادشاہا ترے دروازے پہ آیا ہے فقیر | }} | ||
{{ب|چند آنسو ہیں کہ سوغات میں لایا ہے فقیر | }} | {{ب|چند آنسو ہیں کہ سوغات میں لایا ہے فقیر | }} | ||
سطر 34: | سطر 36: | ||
{{ب|اک نگہ جب سے عنایت کی ہوئی ہے اس پر | }} | {{ب|اک نگہ جب سے عنایت کی ہوئی ہے اس پر | }} | ||
{{ب|اک زمانے کی نگاہوں میں سمایا ہے فقیر | }} | {{ب|اک زمانے کی نگاہوں میں سمایا ہے فقیر<ref>خورشید رضوی،نسبتیں،ص 39</ref> | }} | ||
{پایان شعر}} | {پایان شعر}} | ||
== حوالہ جات == | == حوالہ جات == |
نسخہ بمطابق 00:08، 4 نومبر 2023ء
معلومات | |
---|---|
شاعر کا نام | خورشید رضوی |
قالب | غزل |
وزن | فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
زبان | اردو |
ِِ پادشاہا ترے دروازے پہ آیا ہے فقیر :یہ شریف ڈاکٹر خورشید رضوی کی لکھی ہوئی نعت ہے۔
تعارف
اس نعتیہ کلام میں شاعر نے رسول اللہ کی بارگاہ ملکوتی میں اپنی شرفیابی کا نہایت عاجزانہ انداز میں اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ سلطان مدینہ اور شہر مدینہ سے والہانہ محبت کا اظہار کیا ہے۔
مکمل کلام
{پایان شعر}}
حوالہ جات
مآخذ
ڈاکٹر خورشید رضوی،نسبتیں،کراچی،انٹرنیشنل نعت مرکز،مئ2015ء
پادشاہا ترے دروازے پہ آیا ہے فقیر | | |
چند آنسو ہیں کہ سوغات میں لایا ہے فقیر | ||
دیکھی دیکھی ہوئی لگتی ہے مدینے کی فضا | | |
س پہلے بھی یہاں خواب میں آیا ہے فقیر | ||
اہلِ منصب کو نہیں بار یہاں پر لیکن | | |
میرے سلطان کو بھایا ہے تو بھایا ہے فقیر | ||
اب کوئی تازہ جہاں خود اسے ارزانی | | |
کہ جہانِ دگراں سے نکل آیا ہے فقیر | ||
اُس کو اک خواب کی خیرات عطا ہوجائے | | |
کہ جسے دید کی خواہش نے بنایا ہے فقیر | ||
اک نگہ جب سے عنایت کی ہوئی ہے اس پر | | |
اک زمانے کی نگاہوں میں سمایا ہے فقیر[1] |