"گر علی نہیں آتے، زندگی نہیں آتی" کے نسخوں کے درمیان فرق

شیعہ اشعار سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{جعبه اطلاعات شعر
| عنوان =
| تصویر =
| توضیح تصویر =
| شاعر کا نام = سید سبط جعفر زیدی
| قالب = مخمّس
| وزن = مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
| موضوع = امام علی ؑ
| مناسبت = فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن
| زبان = اردو
| تعداد بند = 9 بند
| منبع = 
}}
'''گر علی نہیں آتے، زندگی نہیں آتی''' استاد [[سید سبط جعفر زیدی]] کا معروف کلام ہے۔
'''گر علی نہیں آتے، زندگی نہیں آتی''' استاد [[سید سبط جعفر زیدی]] کا معروف کلام ہے۔



نسخہ بمطابق 14:02، 28 اکتوبر 2023ء

گر علی نہیں آتے، زندگی نہیں آتی
معلومات
شاعر کا نامسید سبط جعفر زیدی
قالبمخمّس
وزنمفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
موضوعامام علی ؑ
مناسبتفاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن
زباناردو
تعداد بند9 بند


گر علی نہیں آتے، زندگی نہیں آتی استاد سید سبط جعفر زیدی کا معروف کلام ہے۔

تعارف

اس مخمس میں استاد سبط جعفر زیدی شہید ؒ نے فضائل حضرت امیر المؤمنین ؑ کے ساتھ پیروانِ اہل بیت ؑ کو عمل کی بھی تلقین کی ہے اور یہ موعظہ حسنہ عام طور پر ان کے کلاموں کا خاصہ ہوتا ہے۔

مکمل کلام

گر علی ؑ نہیں آتے، زندگی نہیں آتی
زندگی نہیں آتی، روشنی نہیں آتی
روشنی نہیں آتی، بندگی نہیں آتی
بندگی نہیں آتی، آگہی نہیں آتی
روح کے گلستاں میں تازگی نہیں آتی
نفس بیچ کر اپنا، کس سکون سے سویا
اُس کا ایک شب سونا کائنات نے دیکھا
جب تلک نہ ہو تکیہ مرضی الٰہی کا
اور نہ گر میسر ہو بسترِ رسولِ خداؐ
مرتضیٰ ؑ کو بستر پر نیند ہی نہیں آتی
وہ رسول ؐ کا بستر گر نہ تو بھُلا دیتا
فتح خندق و خیبر گر نہ تو بھُلا دیتا
قتلِ مرحب و عنتر گر نہ تو بھُلا دیتا
وہ غدیر کا منبر گر نہ تو بھُلا دیتا
شیخ تیرے حصے میں تِیرگی نہیں آتی
کلمہ جس کا پڑھتے ہو، بغض ان سے رکھتے ہو
بھیک کے بھی طالب ہو، دَم بھی اُن کا بھرتے ہو
اُن کے دشمنوں سے بھی راہ و رسم رکھتے ہو
دعویِ محبت بھی، دشمنی بھی کرتے ہو
کیسے اُمتی ہو تم؟ شرم بھی نہیں آتی!
گو سکون ملتا ہے اللہ ہُو کے نعروں میں
گرمیوں کے روزوں میں، بے رِیا نمازوں میں
سوزِ عشق ملتا ہے ماتمی جوانوں میں
بیٹھتا نہیں جب تک آدمی ملنگوں میں
دل لگی تو آتی ہے، عاشقی نہیں آتی
جو بھی وردِ نادِ علی ؑ صبح و شام کرتا ہے
جو درودِ آلِ نبی صبح و شام پڑھتا ہے
غم حسین ؑ کا رکھ کر، دَم علی ؑ کا بھرتا ہے
اُن کے دشمنوں پر جو بے شمار کرتا ہے
پاس ایسے بندے کے بے کَلی نہیں آتی
کچھ نہیں رکھا واللہ! فلسفہ کی بحثوں میں
معرفت نہیں ملتی مکتبی کتابوں میں
کچھ اثر نہیں باقی، واعظوں کی ڈانٹوں میں
اب کوئی نہیں آتا مولوی کی باتوں میں
بے ولائے آلِ نبی ؐ آگہی نہیں آتی
عشق جس سے کرتے ہیں اُس کی بات بھی مانیں
اسوۂ نبی ؐ و علی ؑ ہر قدم پہ اپنائیں
جتنے کام اچھے ہیں اُن کو کل پہ مت ٹالیں
تنگ دست مؤمن کی دست گیری فرمائیں
آج سے عمل کیجے کل کبھی نہیں آتی
بھیک بھی نہیں ملتی، پیٹ بھی نہیں بھرتا
علم بھی نہیں ملتا اِن کے در پہ آئے بنا
تجربہ ہے یہ میرا یعنی سبطِ جعفر کا
دل پہ چوٹ کھائے بنا، اُن سے لو لگائے بنا
لاکھ مصرعے کہہ لیجے شاعری نہیں آتی[1]

حوالہ جات

  1. زیدی، بستہ: ص369

مآخذ

  • زیدی، پروفیسر سید سبط جعفر، بستہ، کراچی، محفوظ بک ایجنسی، طبع سوم، 1432ھ، 2011ء۔