"انسان کہاں وہ لوگ ہمیں شیطان دکھائی دیتے ہیں" کے نسخوں کے درمیان فرق

شیعہ اشعار سے
(«'''انسان کہاں وہ لوگ ہمیں شیطان دکھائی دیتے ہیں''' پروفیسر سید سبط جعفر زیدی کا ایک خوبصورت کلام ہے۔ ==تعارف== بحر زمزمہ/ متدارک مثمن مضاعف"فعْلن فَعِلن فعْلن فَعِلن فعْلن فَعِلن فعْلن فعْلن" میں لکھی گئی اس منقبت میں اصحاب کسا اور مجموعی طور آل...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
 
 
(ایک ہی صارف کا ایک درمیانی نسخہ نہیں دکھایا گیا)
سطر 1: سطر 1:
{{جعبه اطلاعات شعر
| عنوان =
| تصویر =
| توضیح تصویر =
| شاعر کا نام = سید سبط جعفر زیدی
| قالب = منقبت
| وزن = فعْلن فَعِلن فعْلن فَعِلن فعْلن فَعِلن فعْلن فعْلن
| موضوع = اہل بیت کرام منجملہ پنجتن پاک ؑ
| مناسبت =
| زبان = اردو
| تعداد بند = 17 بند
| منبع = 
}}
'''انسان کہاں وہ لوگ ہمیں شیطان دکھائی دیتے ہیں''' پروفیسر [[سید سبط جعفر زیدی]] کا ایک خوبصورت کلام ہے۔
'''انسان کہاں وہ لوگ ہمیں شیطان دکھائی دیتے ہیں''' پروفیسر [[سید سبط جعفر زیدی]] کا ایک خوبصورت کلام ہے۔


سطر 45: سطر 58:
== مآخذ==
== مآخذ==
* زیدی، پروفیسر سید سبط جعفر، بستہ، کراچی، محفوظ بک ایجنسی، طبع سوم، 1432ھ، 2011ء۔
* زیدی، پروفیسر سید سبط جعفر، بستہ، کراچی، محفوظ بک ایجنسی، طبع سوم، 1432ھ، 2011ء۔
[[زمرہ: سبط جعفر زیدی کے دیگر کلام]]

حالیہ نسخہ بمطابق 11:30، 28 اکتوبر 2023ء

انسان کہاں وہ لوگ ہمیں شیطان دکھائی دیتے ہیں
معلومات
شاعر کا نامسید سبط جعفر زیدی
قالبمنقبت
وزنفعْلن فَعِلن فعْلن فَعِلن فعْلن فَعِلن فعْلن فعْلن
موضوعاہل بیت کرام منجملہ پنجتن پاک ؑ
زباناردو
تعداد بند17 بند


انسان کہاں وہ لوگ ہمیں شیطان دکھائی دیتے ہیں پروفیسر سید سبط جعفر زیدی کا ایک خوبصورت کلام ہے۔

تعارف

بحر زمزمہ/ متدارک مثمن مضاعف"فعْلن فَعِلن فعْلن فَعِلن فعْلن فَعِلن فعْلن فعْلن" میں لکھی گئی اس منقبت میں اصحاب کسا اور مجموعی طور آل محمد ؐ کی فضیلت بیان کی گئی ہے، جبکہ قنبر و فضہ اور دیگر اصحاب خاص کے ذکر کے ذریعے پیروان اہل بیت ؑ کو عمل کی ترغیب دی گئی ہے جو جناب سبط جعفر زیدی شہید ؒ کے کلام کا خاصہ ہے۔

مکمل کلام

انسان کہاں وہ لوگ ہمیں شیطان دکھائی دیتے ہیں
جو آل نبی ؐ کی عظمت سے اَنجان دکھائی دیتے ہیں
میدانِ مباہلہ ہو یا کسا، خلوت ہو یا جلوت پانچوں تن
ہو جمع جہاں ہر صورت میں قرآن دکھائی دیتے ہیں
تکمیل رسالت ہوتی ہے، ترویجِ ولایت ہوتی ہے
جو آج غدیرِ خم میں ہمیں پالان دکھائی دیتے ہیں
میں چشمِ تصور میں جب بھی پالانوں کا منبر دیکھتا ہوں
پالان تلے مجھ کو لاکھوں ارمان دکھائی دیتے ہیں[1]
کچھ لوگ رسولِ اکرم ؐ کا جبریل ؑ کو کہتے ہیں استاد
حالانکہ ہمیں وہ اس گھر کے دربان دکھائی دیتے ہیں
جنت کو جو دوڑے جاتے ہیں بے اذن و وجوازِ ولائے علی ؑ
ہوتے ہوئے پل پر اُن سب کے چالان دکھائی دیتے ہیں
کرتا ہوں غلامی کا دعویٰ، پر شرم سے گڑ گڑ جاتا ہوں
جب بوذر و قنبر، مقداد و سلمان دکھائی دیتے ہیں
قربان ہے ہوش و خرد اس پر ، دانائی و حکمت رشک کرے
جس ہوش و خرد پر بہلولِ نادان دکھائی دیتے ہیں
کہتے ہیں یہ ہندو دیکھتے ہیں کردار جو قنبر و فضہ کا
دیوی دیوتا ، اوتار ، گرو، بھگوان دکھائی دیتے ہیں
نصرت کی تمنا میں مخلص، تعجیل کی دعوت میں سچے
دوچار ہی ایسے متوالے انسان دکھائی دیتے ہیں
شلواریں ہیں اونچی ٹخنوں سے، موٹی گردن، لمبی داڑھی
کچھ ان میں ابو سفیان تو کچھ مروان دکھائی دیتے ہیں
گو نذر و نیاز کے پیش نظر، آنے تو لگے ہیں محفل میں
بخشش کے اب ان کی تھوڑے بہت امکان دکھائی دیتے ہیں
وہ حال کیا ہے پیشہ وروں اور اُ کے پتھاریداروں نے
اب بانی محفل مغوی پئے تاوان دکھائی دیتے ہیں
جب آگئے تربت میں مولا ؑ جو چاہے نکیرین اب پوچھیں
سارے ہی سوالات اب مجھ کو آسان دکھائی دیتے ہیں
جب مدح کی محفل سجتی ہے تب میر حسن، سبط جعفر
جبریل، فرزدق، دعبل اور حسّان دکھائی دیتے ہیں
میلاد و مجالس میں رونق، آباد ہیں اپنے عزاخانے
دربار بھی جبکہ غیروں کے سنسان دکھائی دیتے ہیں
بہتے ہیں جو سرور ؑ کے غم میں رہتے ہی نہیں آنسو، آنسو
رومال میں زہرا ؑ کی لؤلؤ مرجان دکھائی دیتے ہیں[2]

حوالہ جات

  1. یہ شعر اگرچہ مذکورہ ماخذ "بستہ" میں موجود نہیں ہے، لیکن محفلوں میں شہید ؒ کی زبانی سنا گیا ہے اور ایک مشہور منقبت خواں نے اپنے البم میں بھی پڑھا ہے، لہٰذا یہاں درج کیا گیا ہے۔
  2. زیدی، بستہ: ص393

مآخذ

  • زیدی، پروفیسر سید سبط جعفر، بستہ، کراچی، محفوظ بک ایجنسی، طبع سوم، 1432ھ، 2011ء۔