"مظلوم کے ہاتھوں پہ جو دم توڑ رہا ہے" کے نسخوں کے درمیان فرق
(«'''مظلوم کے ہاتھوں پہ جو دم توڑ رہا ہے''' حماد اہل بیت ؑ سید محسن نقوی کا لکھا ہوا سلام ہے۔ ==تعارف== سلام کے آغاز میں سید محسن نقوی نے جناب علی اصغر ؑ کی عظمت کو "قائد ارباب وفا" کے ذریعے نمایاں کیا ہے۔ مدفن کو ترسنے والے مسافر اور تیروں پر رکھے گئے...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا) |
Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←مآخذ) |
||
سطر 16: | سطر 16: | ||
== مآخذ== | == مآخذ== | ||
* محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، ۲۰۰۷م. | * محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، ۲۰۰۷م. | ||
[[زمرہ: محسن نقوی کے دیگر کلام]] |
نسخہ بمطابق 11:24، 28 اکتوبر 2023ء
مظلوم کے ہاتھوں پہ جو دم توڑ رہا ہے حماد اہل بیت ؑ سید محسن نقوی کا لکھا ہوا سلام ہے۔
تعارف
سلام کے آغاز میں سید محسن نقوی نے جناب علی اصغر ؑ کی عظمت کو "قائد ارباب وفا" کے ذریعے نمایاں کیا ہے۔ مدفن کو ترسنے والے مسافر اور تیروں پر رکھے گئے جنازے کی مثالوں کے ذریعے شہید کربلا کی مظلومیت بیان کی ہے۔
مکمل کلام
مظلوم کے ہاتھوں پہ جو دم توڑ رہا ہے | کم سِن ہے مگر قائد اربابِ وفا ہے | |
شبیر ؑ کے مقتل سے گزرتا ہے جو اکثر | وہ اَبر نہیں، ثانئ زہرا ؑ کی رِدا ہے | |
یہ کون مسافر تھا جو مدفن کو بھی ترسا! | یہ کس کا جنازہ ہے جو تیروں پہ رکھا ہے | |
زینب ؑ کی صدا سن کے یہ جبریل ؑ نے پوچھا | یہ حیدر کرار ؑ کہاں بول رہا ہے؟ | |
اے روحِ پیمبر ؐ، تِری امت ہے پریشاں | شاید تِری بیٹی تِری امت سے خفا ہے | |
ماتم کی صدا تیز کرو، سوچتے کیا ہو؟ | شبیر ؑ ابھی نرغۂ اعداء میں گھِرا ہے | |
میں موت سے خائف ہوں نہ محشر سے ہراساں | محسن مِری بخشش کی سند خاکِ شفا ہے[1] |
حوالہ جات
- ↑ محسن نقوی، موجِ ادراک: ص148
مآخذ
- محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، ۲۰۰۷م.